سی اے اے کا احتجاج تو ختم ہوگیا لیکن اس مظاہرے میں جنہوں نے اپنوں کو کھویا، ان کی آنکھیں آج بھی نم ہیں۔ لکھنؤ کی ڈالی گنج کی رہنے والی طیبہ اس مظاہرے میں جاں بحق ہوئی تھیں۔ ان کے والد آج بھی انہیں کو یاد کر کے زار و قطار روتے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون کے پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، جس میں شاہین باغ اور لکھنؤ کا گھنٹہ گھر سر فہرست تھا۔ لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے والی ایک نوجوان لڑکی طیبہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ طیبہ سردی کے موسم میں بارش میں بھیگ گئیں تھیں اور بروقت طبی علاج نہ ملنے کی وجہ سے طیبہ کی موت ہوگئی تھی۔
اس کے بعد کئی سیاسی و سماجی رہنما و کارکنان طیبہ کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچے تھے اور ان کی ہرممکن مدد کرنی یقین دہانی کرائی تھی۔ آج طیبہ کے انتقال کے تقریبا دو برس گزرنے والے ہیں۔ اب ان کے گھر کے کیا حالات ہیں اور ان کے اہل خانہ کیسے طیبہ کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے ای ٹی وی بھارت نے طیبہ کے اہل خانہ سے بات چیت کی۔
طیبہ انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ لکھنؤ کے کرامت ڈگری کالج سے بے اے کررہی تھیں۔ اس کے ساتھ وہ کچھ کام بھی کرتی تھیں تاکہ وہ تھوڑی بہت اپنی گھر کی ذمہ داری کو سنبھال سکیں۔
ان کے والد بتاتے ہیں کہ طیبہ کو جب 'کنیہ ودیا دھن' ملا تو اس نے سارا رقم گھر کے اخراجات میں لگا دیا۔ جب طیبہ کو احتجاجی مظاہرے میں جانے سے روکا جاتا تھا تب وہ کہتی تھیں گھر میں بیٹھ کر مرنے سے بہتر ہے لڑ کر مرو۔ طیبہ کے والد آج بھی طیبہ کی باتیں یاد کر رو پڑتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ طیبہ ایک نیا گاؤن ڈریس (جو شادیوں یا دیگر تقریبات میں خواتیں و لڑکیاں پہنتی ہیں) خرید کر لائی تھی اور اپنی ماں سے کہا تھا کہ میری سہیلی کے یہاں شادی ہے۔ 24 فروری کو یہ شادی میں پہن کر جاؤں گی لیکن 23 فروری کو اس کا انتقال ہوگیا اور 24 فروری کو وہ سپرد خاک ہوئی۔ یہ منظر اور اس کی باتیں یاد کر کے ان کے والد اشکبار ہوجاتے ہیں۔
طیبہ کے والد مہلک بیماری کینسر میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ وہ امراض قلب و دیگر کئی بیماریوں سے بھی لڑ رہے ہیں۔ طیبہ کے والد کہتے ہیں کہ ان کا ہر ہفتے دوبار ڈائیلائسس ہوتا ہے، جس کا خرچ 6 ہزار ہوتا ہے۔ طیبہ کی چھوٹی بہن کی شادی آئندہ 15 نومبر کو ہونے والی ہے لیکن ابھی شادی کی کوئی خاص تیاری نہیں ہوئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ طیبہ کے ساتھ پڑھنے والے ہم جماعتوں نے کچھ مدد کی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی کارکنان نے بھی ان کی کچھ مدد کی ہے۔ لیکن اب تک حکومت کی جانب سے کوئی بڑے امداد کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
طیبہ کے والد بتاتے ہیں کہ طیبہ کے انتقال کے وقت متعدد سیاسی رہنماوں نے مدد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اب کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سماج وادی پارٹی کی رہنما پوجا شکلا و رکن اسمبلی عالم بدیع اعظمی آتے رہتے ہیں اور کچھ مدد بھی کرتے ہیں ان کے علاوہ کوئی نہیں آتا ہے۔