معاشرے کے لیے مساوات بہت ضروری ہے، جس پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے تاکہ مرد اور خاتون دونوں ملک و قوم کی ترقی میں یکساں کردار ادا کرسکیں۔ اس میں ویمنس کالج کا اہم کردار ہے۔ ہر شعبے میں آج خواتین کی جو حصہ داری دکھائی دیتی ہے اس کا خواب یہاں کے بانیان نے دیکھا تھا جو زمینی حقیقت میں بدل رہاہے“ ان خیالات کا اظہار یوم بانیان کے موقع پر منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیا۔
انہوں نے کہا اے ایم یو ویمنس کالج کی بڑی سنہری تاریخ ہے، جس پر ہمیں فخر ہے، یہ تاریخ شیخ عبد اللہ اور وحید جہاں نے اپنی محنت اور جہد مسلسل سے بنائی ہے۔ انہوں نے لڑکیوں کے لیے صرف ایک اسکول نہیں قائم کیا تھا بلکہ معاشرے میں تبدیلی فکر کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بچیوں کی تعلیم کے لیے از حد کوششوں کی آج بھی ضرورت ہے، خصوصا دیہی علاقوں میں کیونکہ وہاں آج بھی علم کی روشنی اس طرح نہیں پھیل سکی ہے جس طرح ہونی چاہیے تھی۔
پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ شیخ عبداللہ کی تحریک تعلیم نسواں ابھی تکمیل تک نہیں پہنچی ہے، اس تحریک کو ہمیں بہت آگے تک لے جانا ہے، جب تک کہ ملک کی ہر خاتون ہر بچی تعلیم یافتہ نہ ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت سے کالج اور یونیورسٹیاں ہیں لیکن ہم نے یہاں معیاری تعلیم پر توجہ دی ہے اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ اب صرف تعلیم یافتہ ہوجانے سے ترقی حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے معیاری تعلیم ضروری ہے جس میں ویمنس کالج مصروف عمل ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر آمنہ کشور نے یوم بانیان کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا شیخ عبد اللہ کی محنتوں اور کالج کے لیے ان کی جد وجہد کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنی پوری پراپرٹی کالج کے نام کردی تھی۔ انہوں نے اپنی ساری دولت اپنے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کرنے کے بجائے کالج کو دی، ان کے اس جذبے کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔
پروفیسر آمنہ کشور نے کالج سے اپنی وابستگی اور طالب علمی کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ نے مجھے عزت اور شہرت دونوں دی، اس نے ہمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ انہوں نے کالج کی پہلی پرنسپل اور کالج کے بانیان کی بیٹی ممتاز جہاں کو یاد کرتے ہوئے ان کی محبتوں اور تعلیم کے لیے ان کی ترغیب کا خصوصی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو پورے مواقع ملے ہوئے ہیں جس کا آپ کو فائدہ اٹھانا چاہیے، آپ دنیا کو تعلیم کے ذریعہ فتح کر سکتی ہیں، یہی خواب پاپا میاں اور اعلیٰ بی نے دیکھا تھا جسے آپ کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ آپ کو معاشرے کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنا ہے جس کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ اس سے ایک نئی دنیا تخلیق ہوگی جس میں آپ کا حصہ سب سے زیادہ ہوگا۔ آپ کو اپنی پرواز میں کوتاہی نہیں آنے دینا ہے اور رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ اسی میں کامیابی مضمر ہے۔
واضح رہے کہ پروفیسر آمنہ کشور 2001 سے 2007 تک ویمنس کالج، اے ایم یو کی پرنسپل رہیں، اس کے بعد مولانا آزاد یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئیں۔
پروگرام میں مہمان اعزازی نائب شیخ الجامعہ پروفیسر محمد گلریز نے یوم بانیان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کالج نے 1906 سے لے کر اب تک لاکھوں بچیوں کو تعلیم یافتہ بنایا ہے، جس سے سماج کو ایک نئی سمت ملی ہے، یہ کالج کی چھوٹی کامیابی اور حصولیابی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ شیخ عبداللہ اور وحید جہاں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، جنہیں اخلاقی اور مالی معاونت والیئ بھوپال نواب سلطان جہاں نے دی جس سے ان کو استقامت ملی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم بچیوں اور خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے میں اس کالج کا اہم کردار ہے، یہ کردار صرف اس طور پر نہیں ہے کہ ان بچیوں نے صرف یہاں تعلیم حاصل کی ہو بلکہ اس کالج نے پورے معاشرے کو ایک روشنی دکھائی جس سے خواتین کی تعلیم کی راہیں روشن ہوئیں۔ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ویمنس کالج کو یہ اولیت حاصل ہے کہ اس نے معاشرے کے ایک بڑے حصے کو ناکارہ ہونے سے بچاکر ملک و قوم کو خوبصورتی عطا کی اور ان کی زندگیوں کو خوشگوار بنایا۔
پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے یوم بانیان کے موقع پر تمام مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی قربانیوں اور جد وجہد کو یاد کیا۔انہوں نے خواتین کی تعلیم کی ترقی کو تاریخی تسلسل کے ساتھ پیش کرتے ہوئے مسلم گرلس اسکول کے ویمنس کالج تک پہنچنے کے سفر کو بیان کیا اور بتایا کہ اس وقت تین ہزار سے زائد طالبات یہاں زیر تعلیم ہیں، جس میں مختلف ممالک کی بچیاں بھی ہیں۔
انہوں نے تعلیمی اور کالج کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی اجمالی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وائس چانسلر کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ شکاگو میں رہنے والی اولڈ گرلس نے 86 لاکھ روپئے کالج کو عطیہ کیا ہے تاکہ ضروری تعلیمی آلہ جات مثلا کمپیوٹر اور اس کے متعلقات کی خریداری کی جا سکے۔ بچیوں کی ملکی سطح پر کامیابی پر مبنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مختلف شعبوں مثلا کھیل، تعلیم، این سی سی، تعلیمی و تقریری مقابلوں میں کس طرح بچیوں نے ملکی و غیر ملکی سطح پر کامیابی حاصل کی اور انعامات حاصل کرکے کالج کا نام روشن کیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری بچیوں میں نہ اعتماد کی کمی ہے اور نہ ہی صلاحیت کا فقدان ہے بس ان کو مواقع کی ضرورت ہوتی ہے، کالج نے یہ مواقع فراہم کرائے اور انہوں نے کامیابی حاصل کرکے یہ دکھا دیا کہ وہ کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہیں۔انہوں نے کووڈ19 میں بچھڑنے والے اساتذہ کو یاد کرتے ہوئے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا۔
کالج کے اساتذہ پروفیسر نازیہ حسن، پروفیسر منیرہ ٹی، ڈاکٹر نگار عالم صدیقی، ڈاکٹر سرور ساجد، ڈاکٹر سیدہ خاتون، ڈاکٹر شگفتہ نیاز، ڈاکٹر زرینہ خان، ڈاکٹر صدف فرید، ڈاکٹر رضوانہ شفیع، ڈاکٹر محمد سہیل، ڈاکٹر حنا اسحاق، ڈاکٹر محمد فیروز احمد، ڈاکٹر لبنی ناز، ڈاکٹر افسانہ پروین، مرحو ڈاکٹر محمد فرقان، اور ڈاکٹر محمد حنیف خاں کی کتابوں کا اجراء بھی ہوا۔
مزید پڑھیں: