عالمی وبا کورونا وائرس کی دوسری لہر نے طرز زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایسا کوئی طبقہ نہیں ہے، جو معاشی، سماجی اور عارضی طور پر متاثر نہ ہوا ہو۔ کاروبار سے لےکر ملازمت تک، ہر طبقہ کورونا کی زد میں آیا ہے۔
ایسے ہی حالات ہیں محکمہ ریلوے سے وابستہ تمام شعبوں کے، ریلوے میں سرکاری ملازمین کے علاوہ ایسے تمام لوگوں کی وابستگی ہے جن کی محنت سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ لیکن کورونا کی دوسری لہر نے بچوں کی پرورش کی ذمہ داری اور ان کے مستقبل کے بابت کئی سوال پیدا کر دیئے ہیں۔
دنیا کے سب سے بڑے محکموں میں سے ایک ریلوے محکمہ، نہ صرف سرکاری ملازمین کے لیے ذریعہ معاش ہے، بلکہ لاکھوں غیر سرکاری ملازمین بھی براہ راست یہاں کام کرکے اپنے کنبہ کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن کورونا کی وجہ سے ریلوے محکمہ نے ریلوں کی آمد ورفت پر پابندی لگا دی ہے۔ لہذٰا، یہاں دن رات محنت مزدوری کرکے کنبہ کو پالنے والوں کے پاس اب کوئی کام نہیں ہے۔
ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں شمال ریلوے اور شمال مشرقی ریلوے کے بڑے جنکشن ہیں۔ جہاں کورونا کی وبا سے پہلے روزانہ درجنوں کی تعداد میں ٹرینیں گزرتی تھیں۔ یہاں آنے جانے والے مسافروں کی آمد و رفت کی چہل پہل سے تمام سامان کی خرید وفروخت بھی ہوتی ہے۔
پھل، کھانا، پانی، چائے سے لیکر بچوں کے کھلونے کی خوب فروخت ہوتی تھی۔ ایسے میں ایک ٹھیلے اور کھونچے والا روزانہ کم از کم 500 سے 700 روپیہ تک کی آمدنی کرتا تھا۔ جس سے اس کے بچے کھانا بھی کھاتے ہیں اور تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن کورونا کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن نے دانے دانے کو محتاج کر دیا ہے۔ اب لاک ڈاؤن ختم ہو چکا ہے، لیکن ریل نہ چلنے کی وجہ سے ان غیر سرکاری ملازمین کا کام بالکل بند ہے۔
مخدوم گزشتہ کئی برسوں سے یہاں پھل کا ٹھیلا لگاتے ہیں، اب مسافر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہیں۔ یہیں حال قلیوں کا بھی ہے۔ کسی زمانے میں قلی کی باہوں پر باندھے جانے والے بلّے کی بہت اہمیت ہوتی تھی۔ رسم یہ تھی قلی رٹائرمنٹ کے بعد اپنا بِلّہ یا تو اپنے بیٹے کو وراثت میں دیتا تھا یا پھر اپنے کسی رشتہ دار کے سپرد کرتا تھا۔
لیکن اب قلیوں کے لیے اسٹیشن پر زیادہ کام نہیں بچا ہے۔ قلیوں کے مطابق، جب سے بریف کیس اور بیگ میں پہیے لگ کر آنے لگے ہیں، کوئی مسافر اب قلی کی خدمت نہیں لینا چاہتا۔ اس کے برعکس کورونا کی پہلی اور دوسری لہر نے کام کو تباہ کر دیا ہے۔
بہرحال ریلوے سے وابستہ کام کرنے والے تمام لوگوں کو اس وقت کا انتظار ہے جب یہاں ٹرینوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوگا اور لوگ کثیر تعداد میں جنکشن کی طرف رخ کریں گے۔