لکھنؤ: لکھنؤ یونیورسٹی کے مالویہ آڈیٹوریم میں چوتھی عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مہمان خصوصی کے طور پر اتر پردیش کے سابق گورنر رام نائک، اردو اکیڈمی کے چیئرمین کیف الوری چودھری، فخر الدین علی احمد کمیٹی کے چیئرمین اطہر صغیر اور پروگرام کے آرگنائزر ڈاکٹر عمار رضوی شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ شہر کی متعدد سرکردہ شخصیات شامل ہوئیں، جس میں اردو کی ترقی واشاعت کے حوالے سے متعدد مسائل پر غور و فکر کیا گیا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے اترپردیش کے سابق گورنر رام نائک نے کہا کہ اردو کو صحیح مقام ملنا چاہیے،اردو ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے، ہمارے اوپر لکھی گئی کتاب کا بھی اردو میں ترجمہ ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ میں جس وقت گورنر تھا اس دور میں راج بھون میں بھی اردو میں نام لکھوایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اردو زبان ایک دوسرے کو جوڑنے کے لیے ہے نہ کہ کسی خاص مذہب کی زبان ہے۔ ریاست میں اردو کے ساتھ ہو رہے ہیں امتیازی سلوک کے حوالے سے سوال کرنے پر انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ابھی مجھے کوئی بھی معلومات حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اتر پردیش محکمہ صحت کی جانب سے جاری سرکولر میں کہا گیا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کے نام اردو میں لکھے جائیں گے جس پر حکومت نے نے محکمہ صحت کے افسر ڈاکٹر تبسم کو معطل کر دیا تھا اس پر بھی انہوں نے کوئی کسی بھی ردعمل دینے سے پرہیز کیا۔
- مزید پڑھیں:'مسلمان کانگریس کے غلام نہیں'
انہوں نے نیا دور میگزین کے حوالے سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا جبکہ میگزین تین برس سے بند ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو صحیح مقام ملنا چاہیے یہی میرا ماننا ہے۔ اس کو سیاسی اکھاڑہ نہیں بنانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اردو ملک کی زبان ہے ۔آزادی میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس حوالے سے بھی اردو کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اردو کی تعلیم کو معیاری بنایا جائے۔ موجودہ دور میں اردو اور ہندی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اس زبان کو کسی خاص مذہب سے جوڑ کر دیکھنا بھی غلط ہے۔