منشی نول کشور کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی یا متھرا میں، اس پر اختلاف رائے ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ ایک برہمن پریوار میں 1836 میں پیدا ہوئے تھے۔ منشی نول کشور 22 سال کی عمر میں لاہور سے لکھنؤ آ گئے اور انہوں نے یہاں پر 'نول کشور پریس' کی بنیاد رکھی، جو کم وقت میں ہی ملک اور بیرونی ممالک میں مقبول ہوگیا۔ 26 نومبر 1858 میں انہوں نے 'اودھ اخبار' کا اجراء کیا، جو بڑے سائز کے چار صفحات پر مبنی ہوتا تھا۔
منشی نول کشور کے پریس کا سب سے بڑا کارنامہ داستان 'امیر حمزہ' کی 46 جلدوں کی اشاعت ہے، جسے دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا جاتا ہے۔ منشی نول کشور نے 1871 میں لکھنؤ شہر میں 'اپر انڈیا کوپن پیپر مل' کی بنیاد رکھی، جو شمال بھارت میں کاغذ بنانے کا پہلا کارخانہ تھا۔ منشی جی کو کتنی مقبولیت حاصل تھی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ ایران نے کلکتہ میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ "ہندوستان آنے کے میرے دو مقصد ہیں۔ ایک وائسرائے سے ملنا اور دوسرا منشی نول کشور سے ملاقات۔"
کچھ ایسے ہی خیالات لودھیانہ دربار میں افغانستان کے شاہ عبدالرحمن نے 1885 میں ظاہر کیے تھے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ آج ان کے پریس کا نام و نشان نہیں ہے، لیکن ان کی پریس سے چھپی ہوئی تمام کتابیں ملک اور بیرونی ممالک میں آج بھی محفوظ ہیں۔ منشی نول کشور کے پریس سے ایک طرف جہاں اردو زبان کی تمام کتابیں شائع ہوتی تھیں، وہیں اسلامی تعلیمات کی کتابیں بھی شائع ہوتی تھی۔
آج بھی ان کے پریس کی اردو، عربی اور فارسی زبان کی کئی کتابیں لکھنؤ کی 'امیر الدولہ پبلک لائبریری' میں موجود ہیں۔ یہاں کتابوں کے علاوہ منشی جی کے زندگی سے وابستہ کئی قیمتی اور نایاب چیزیں لائبریری میں ہیں، لیکن انہیں دیکھنے اور سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس پریس میں اردو، عربی اور فارسی کی 65 فیصد کتابیں شائع ہوتی جبکہ 35 فیصد میں ہندی، بنگلہ، سنسکرت وغیرہ زبانوں کی کتابیں شائع ہوتی تھی۔
منشی جی نے اردو زبان کی ترقی و تحفظ کے لئے اہم رول ادا کیا۔ قابل ذکر ہے کہ ان کے پہلے بھی کئی پریس قائم تھے اور بعد میں بھی رہیں، لیکن جو مقبولیت منشی نول کشور کے پریس کو ملی وہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہو پائی۔ منشی نول کشور کے پوتے پدمشری رنجیت بھارگو نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ، 'منشی جی کا پریس 90 سال تک قائم رہا اور سنہ 1950 میں اسے بند کرنا پڑا۔' انہوں نے بتایا کہ، 'پریس کو بند کرنے کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے قیام سے لے کر 1950 میں جب بند ہوا، تب تک کبھی بھی منافع میں نہیں رہا بلکہ ہمیشہ گھاٹے پر کتابیں چھپتی رہیں۔'
انہوں نے کہا کہ، 'یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان کی بیش قیمتی کتابوں کو جاپان، جرمنی، ایران، امریکہ اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کے لائبریری کو کتابیں فروخت کر دیا یا انہیں ہدیہ کردیا۔' ہندو مذہب سے وابستہ ہونے کے باوجود منشی نول کشور نے کئی اہم اسلامی کتابیں قرآن کی تفاسیر احادیث کے مجموعے اور فقہ کی کتابیں شائع کیں۔ ان میں فتوی عالمگیری، سنن ابو داؤد، سنن ابی ماجہ، مثنوی مولانا روم، قصائد عرفی، تاریخ طبری، دیوان امیر خسرو، فسانہ آزاد، دیوان غالب، الف لیلہ اور گیتا کا اردو زبان میں ترجمہ۔
مزید پڑھیں:
مغل میوزیم کا نام تبدیل کرنے پر سیاسی رہنماؤں کا ردعمل
منشی نول کشور کے لکھنو پریس سے 1858 سے 1950 تک 6 ہزار سے زائد کتابیں شائع ہوئیں۔ لکھنؤ تہذیب و ادب کا شہر ہونے کے باوجود اردو، عربی اور فارسی کی کتابوں پر دھول کی گرد ابھی بھی اپنے قارئین کی توجہ کا انتظار کر رہی ہے۔ یہاں پر اکثر کتابیں دھول پھانک رہی ہیں کیونکہ انہیں پڑھنے اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔