مغلیہ دور میں جونپور علم و ادب کا بڑا مرکز رہا ہے یہاں بے شمار مدارس و مکاتب کے ساتھ۔ساتھ درجنوں کتب خانے بھی ہوا کرتے تھے لیکن گزرتے وقت اور عوام کی بے رغبتی کے سبب یہاں کے تمام کتب خانے رفتہ۔رفتہ تاریخ کا حصہ بن گئے۔
لیکن دیوان عبدالرشید کی خانقاہ رشیدیہ میں موجود جونپور کا واحد قدیمی کتب خانہ آج بھی اپنے شاندار ماضی کی یاد کو تازہ کراتا ہے۔
اس کتب خانے میں بے شمار نادر و قدیم قلمی نسخے، ملفوظات اور خطوط عربی و فارسی زبان میں موجود ہیں۔
اس کتب خانے کی نادر و نایاب کتابوں میں ملہ محمود جونپوری کی الفرائد قلمی، شمس بازغہ قلمی کے ساتھ فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی کی دیوان حافظ کا قلمی نسخہ بھی یہاں شامل تھا جس کا ایک نسخہ شاہ ایران کو بھی پیش کیا گیا تھا۔
دیوان عبدالرشید کی گنج ارشدی،گنج رشیدی،گنج فیاضی،گنج فصیحی اور فن مناظرہ میں مقبول ترین کتاب مناظرہ رشیدیہ کا قلمی نسخہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ ہزار کتابیں مختلف علوم و فنون میں آج بھی کتب خانے میں پائی جاتی ہیں۔
اس کتب خانے میں اتنی نادر و نایاب کتابیں ہونے کے باوجود عوام و خواص اس سے استفادہ نہیں کرپاتے کیونکہ یہاں بیشتر کتابیں عربی و فارسی زبان میں یعنی کی اصل حالت میں موجود ہیں۔
موجودہ وقت میں کتب خانے کا رخ صرف ریسرچ کرنے والے حضرات ہی کرتے ہیں اور ان کتابوں کی نقل لے کر استفادہ کرتے ہیں۔
خانقاہ رشیدیہ کے خادم حافظ ممتاز نے بات چیت میں بتایا کہ کتب خانہ میں قدیم ترین قلمی نسخے موجود ہیں خود دیوان عبدالرشید کی متعدد قلمی نسخے ہیں، عوام اس کتب خانے سے استفادہ نہیں کر پاتے کیونکہ بیشتر کتابیں عربی و فارسی زبان میں ہیں صرف ریسرچ کرنے والے کتب خانے میں آتے ہیں اور کتابوں کی نقل لیکر استفادہ کرتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مؤرخ عرفان جونپوری نے کہا کہ خانقاہ رشیدیہ عہد شاہجہانی کی ہے دیوان عبدالرشید کے زمانے سے ہی شہرت کی حامل تھی۔
انہوں نے بتایا کہ خانقاہ رشیدیہ کا کتب خانہ ہندوستان و بیرونِ ممالک میں اچھی خاصی شہرت رکھتا ہے،یہاں پر بے شمار قلمی و نادر نسخے پائے جاتے ہیں۔مزید بتایا کہ کچھ زمانے سے اس کی دیکھ ریکھ کم رہی جس کی وجہ سے کتابیں دیمک زدہ ہو گئیں نگراں نہ ہونے کے باعث کچھ کتابیں دریا برد کی گئیں۔
موجوہ صورت حال یہ ہے کہ خانقاہ کے سابق سجادہ نشین عبدالعلیم آسی کے نام سے موسوم آسی فاؤنڈیشن کے تحت متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرکے منظر عام پر لایا گیا ہے اور مزید اس پر کام ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی کتابیں ابھی ترجمے کی محتاج ہیں جو عوام و خواص کی گرفت سے دور ہیں شہر کے سنجیدہ اور علمی طبقے کو اس کی حفاظت کے لیے آگے ہونا ہوگا۔
اس وقت کتب خانے کا نظام درہم۔برہم ہے کتابیں دیکھ بھال نہ کرنے کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ غفلت سے بیدار ہوکر فوری طور پر کتب خانے کی بقاء و حفاظت کی ذمّہ داری لیں تاکہ اس تاریخی و عظیم ورثے کو تادیر زندہ و محفوظ رکھا جا سکے۔