جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ 'مودی حکومت کی بنیاد ہی بھید بھاؤ کے اوپر ہے کیونکہ یہ حکومت اپنی کامیابی میں ایسی چیزیں پیش کرتی ہیں جو راست طور پر اقلیتوں سے منسلک ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'کورونا وائرس کے معاملے میں حکومت کی ناکامی ظاہر ہوچکی ہے جس کی وجہ سے خطرات بڑھنے کا ڈر ہے۔'
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ 'ملک میں ہر جگہ بھید بھاؤ نظر آرہا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'وزیر داخلہ ہو، وزیر دفاع یا پھر دیگر کوئی حکومتی نمائندہ، جب وہ اپنی حکومت کی کامیابی بیان کرتا ہے تو وہ اپنی کامیابیوں میں دفعہ 370 کی منسوخی، این آرسی، طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد جیسے معاملے کو پیش کرتا ہے۔'
مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ 'انہوں نے کہاکہ اس حکومت کی بنیاد ہی بھید بھاؤ پر ہے لیکن ہم کہنا چاہتے ہیں ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم ملک کی ترقی ہے اس لیے ہمیں متحدہ طور پر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بے سہارا مزدوروں کے معاملہ میں ہم نے پیار و محبت کی ایسی مثال پیش کی ہے جس کی نظیر 1947 سے لے کر آج تک نہیں ملتی ہے۔ کورونا وائرس جیسی بیماری کا علاج سرکار کے پاس ہے یا نہیں یہ حکومت بتائے گی لیکن مجھے افسوس ہے کہ حکومت کو جس طرح تمام اقلیتوں اور اکثریت کو ساتھ لیکر ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے تھا اور انہیں اعتماد میں لینا چاہیے لیکن حکومت اس میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ 'مجھے خطرہ ہے آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوجائیں گے اور اس کا مقابلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ لاک ڈاؤن کے بعد عبادت گاہوں کو کھولے جانے کے بعد مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ مرکز نے اس کا اختیار صوبوں کو دے دیا تھا کہ وہ اپنے یہاں کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس بابت شرائط طے کریں چنانچہ صوبائی حکومتوں نے اس سلسلہ میں الگ الگ موقف اختیار کرتے ہوئے الگ الگ شرائط کے ساتھ مسجدوں میں نماز اداکرنے کی اجازت دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا جیسی مہلک وبا کے تعلق سے پہلے ہی دن سے جمیعت العلماء ہند کی جانب سے لوگوں کو احتیاط اور بچاؤ اختیار کرنے کی اپیل جاری کی جاتی رہی ہیں اور ان پر لوگوں نے عمل کیا ہے چنانچہ مسجدوں میں نماز کی ادائیگی کو لیکر بھی جمیعت العلماء کا یہی کہنا ہے کہ مسلمان اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے حکومت کی گائیڈ لائن کو ملحوظ رکھیں۔
مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ لاک ڈاون میں بیروزگاری اور فاقہ کشی کا شکار ہو کر غریب مزدوروں کی گھروں کو واپسی کے دوران مسلم نوجوانوں نے اپنی بھوک اور پیاس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح ان کی مدد کی، اس کی ملک کے تمام انصاف پسندوں نے زبردست ستائش کی ہے؎۔