کانپور: ریاست اترپردیش کے کانپور کی عیدگاہ میں جگہ نہ مل پانے پر بدرجہ مجبوری سڑک پر پڑھی گئی نماز کے بعد دو ہزار سے زائد نمازیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جس پر علمائے کرام اور دانشوران شہر نے سخت افسوس کا اظہار کیا ہے۔عید گاہ کے باہر سڑک پر پڑھی جانے والی نماز کی روایات گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل چلی آرہی ہے۔ جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے کہا کہ پورے سال میں عیدگاہ پر صرف دو نمازیں ہوتی ہیں، عیدگاہ میں نماز پڑھنے کی کافی فضیلتیں ہیں جس کی وجہ سے ہر مسلمان عیدگاہ جانا چاہتا ہے۔
لاکھوں کی مسلم آبادی والے شہر کی عیدگاہ میں لاکھ دو لاکھ لوگوں کا پہنچ جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مولانا نے کہا کہ خدا کی عبادت کرنے پر مقدمہ درج کرنا بھارت کی روح کے منافی ہیں۔ ایسا کرکے ایک ہندوستانی قوم کے طور پر ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ شہری افسران کو ایک سنجیدہ اور ذمہ دار منتظم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فوری طور پر تمام مقدمات واپس لے کر سابقہ کی طرح آئندہ بھی عیدگاہوں میں جگہ کا انتظام کرنے میں معاون و مددگار کی حیثیت سے ساتھ دینا چاہیے۔
جمیعت علماء ہند اُتر پردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے کہا کہ ہمیں قوی امید ہے کہ مقدمات واپس لے لیے جائیں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو جمعیۃ علماء قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی لڑنے کو تیار ہے۔ وہیں انڈین نیشنل لیگ کے قومی صدر محمد سلیمان نے کہا کہ آئین کی دفعہ 19 میں مذہبی آزادی اور حکومت کے تعاون اور مددگار ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جن سنگین دفعات میں مقدمات درج کیے گئے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہے ایسی سنگین دفعات میں مقدمہ درج کرنا جس کا اس فعل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے پھر بھی پولیس کی طرف سے درج کیا گیا مقدمہ حکومت کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ محسوس ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : Eid prayers: کانپور میں دو ہزار سے زائد نمازیوں کے خلاف مقدمہ درج، سڑک پر عید کی نماز پڑھنے کا الزام