ETV Bharat / state

لکھنؤ: علمائے فرنگی محل کا جنگِ آزادی میں اہم کردار

جنگِ آزادی میں لکھنؤ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ قابلِ فخر ہے۔ تحریکِ آزادی کو تقویت دینے اور عوام کو بڑے پیمانے پر شامل کرنے میں لکھنؤ کے علمائے فرنگی محل کا نام سرفہرست ہے

لکھنو: علمائے فرنگی محل کا جنگ آزادی میں اہم کردار
لکھنو: علمائے فرنگی محل کا جنگ آزادی میں اہم کردار
author img

By

Published : Aug 10, 2021, 2:10 PM IST

اترپردیش کا دارالحکومت لکھنؤ نہ صرف تہذیب و تمدن، ثقافت اور زبان کے اعتبار سے منفرد شناخت رکھتا ہے بلکہ جنگ آزادی کے حوالے سے بھی لکھنؤ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ قابل فخر ہے۔

ویڈیو

اودھ کی نزاکت و نظافت نوابی طور طریقے اپنی جگہ مسلّم ہیں لیکن جب بات ملک کی آزادی کی آئی تو سبھی ایک صف میں شامل ہوکر انگریزی حکومت کے خلاف محاذ آرا ہوگئے جو لکھنؤ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔

تحریک آزادی کو تقویت دینے اور عوام کو بڑے پیمانے پر شامل کرنے میں لکھنؤ کے علمائے فرنگی محل کا نام سرفہرست ہے۔ فرنگی محل خاندان سے وابستہ عدنان عبدالوالی بتاتے ہیں۔ ہم آزادی کے وقت موجود نہ تھے تاہم جو بھی اپنے آباء واجداد کے حوالے سے جنگ آزادی سے متعلق پڑھا وہ کافی اہم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مولانا عبدالرزاق 1857 کے جنگ آزادی کے بعد انگریز کے بنائے ہوئے روشنائی، قلم، ٹرین، جوتا و دیگر اشیاء کو ترک کردئے تھے اور اپنے مریدوں کو بھی انگریزوں کی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ مولانا کا یہی عمل آگے چل کر تحریک عدم تعاون کی شکل میں تبدیل ہوگیا تھا اور یہ تحریک انگریز حکومت کو زیر کرنے میں کافی اثردار ثابت ہوا تھا۔

مولانا عبدالرزاق انگریزی حکومت کے خلاف تھے، انگریزی حکومت کے وائے سرائے نے مولانا کو اودھ کے کمشنر شمس العلماء ایوارڈ دینے کی پیشکش کی تھی جس کو مولانا نے سختی سے منع کردیا اور جواب میں کہا کہ بھارتیوں کا ناحق خون بہانے والوں سے میں ملاقات نہیں کرسکتا۔ اس تعلق سے نزہت فاطمہ بتاتی ہیں۔

مولانا عبدالرزاق کے پوتے مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے گاندھی جی کے ساتھ متعدد میٹنگ کی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا، مولانا نے گاندھی جی کو ہندو مسلم کا قائد بھی قرار دیا تھا، جب گاندھی فرنگی محل آتے تھے اس دوران پورے علاقے میں گوشت نہیں پکایا جاتا تھا۔ گاندھی نے فرنگی محل میں کئی بار قیام کیا جو کمرہ آج بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں:Rahul Gandhi: راہل گاندھی نے کھیر بھوانی مندر میں حاضری دی

مولانا ابوالکلام آزاد، بابائے قوم مہاتما گاندھی، سروجنی نائیڈو اور جواہر لال نہرو سمیت سرکردہ ہستیوں نے فرنگی محل میں نہ صرف قیام کیا بلکہ فرنگی محل کو متعدد بار خطوط بھیج کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

فرنگی محل میں ایک خفیہ کمرہ آج بھی موجود ہے جہاں آزادی کے متوالے خفیہ میٹنگ کیا کرتے تھے اس حوالے سے انگریزی پولیس کا چھاپہ بھی پڑا تھا اور کچھ افراد کو جیل بھی ہوئی تھی۔

اسی طرح فرنگی محل لکھنؤ کے متعدد علماء نے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کیا اور سزائیں کاٹیں۔

علمائے فرنگی محل آزادی کے بعد تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے یہاں تک کے انہوں نے جناح سے کبھی ملاقات نہیں کی۔لکھنؤ کا فرنگی محل آزادی کے لیے وہ یادگار محل ہے جہاں پر آج بھی آزادی کے متوالوں کی نشانات اور گاندھی جی کے خطوط موجود ہیں۔

لیکن دن بدن عظیم وراثت کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، خاندان کی معاشی کمزوری کی وجہ سے اس محل کی تزئین کاری نہیں ہوپارہی ہے۔

اترپردیش کا دارالحکومت لکھنؤ نہ صرف تہذیب و تمدن، ثقافت اور زبان کے اعتبار سے منفرد شناخت رکھتا ہے بلکہ جنگ آزادی کے حوالے سے بھی لکھنؤ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے وہ قابل فخر ہے۔

ویڈیو

اودھ کی نزاکت و نظافت نوابی طور طریقے اپنی جگہ مسلّم ہیں لیکن جب بات ملک کی آزادی کی آئی تو سبھی ایک صف میں شامل ہوکر انگریزی حکومت کے خلاف محاذ آرا ہوگئے جو لکھنؤ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔

تحریک آزادی کو تقویت دینے اور عوام کو بڑے پیمانے پر شامل کرنے میں لکھنؤ کے علمائے فرنگی محل کا نام سرفہرست ہے۔ فرنگی محل خاندان سے وابستہ عدنان عبدالوالی بتاتے ہیں۔ ہم آزادی کے وقت موجود نہ تھے تاہم جو بھی اپنے آباء واجداد کے حوالے سے جنگ آزادی سے متعلق پڑھا وہ کافی اہم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مولانا عبدالرزاق 1857 کے جنگ آزادی کے بعد انگریز کے بنائے ہوئے روشنائی، قلم، ٹرین، جوتا و دیگر اشیاء کو ترک کردئے تھے اور اپنے مریدوں کو بھی انگریزوں کی مصنوعات کا سختی سے بائیکاٹ کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ مولانا کا یہی عمل آگے چل کر تحریک عدم تعاون کی شکل میں تبدیل ہوگیا تھا اور یہ تحریک انگریز حکومت کو زیر کرنے میں کافی اثردار ثابت ہوا تھا۔

مولانا عبدالرزاق انگریزی حکومت کے خلاف تھے، انگریزی حکومت کے وائے سرائے نے مولانا کو اودھ کے کمشنر شمس العلماء ایوارڈ دینے کی پیشکش کی تھی جس کو مولانا نے سختی سے منع کردیا اور جواب میں کہا کہ بھارتیوں کا ناحق خون بہانے والوں سے میں ملاقات نہیں کرسکتا۔ اس تعلق سے نزہت فاطمہ بتاتی ہیں۔

مولانا عبدالرزاق کے پوتے مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے گاندھی جی کے ساتھ متعدد میٹنگ کی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا، مولانا نے گاندھی جی کو ہندو مسلم کا قائد بھی قرار دیا تھا، جب گاندھی فرنگی محل آتے تھے اس دوران پورے علاقے میں گوشت نہیں پکایا جاتا تھا۔ گاندھی نے فرنگی محل میں کئی بار قیام کیا جو کمرہ آج بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں:Rahul Gandhi: راہل گاندھی نے کھیر بھوانی مندر میں حاضری دی

مولانا ابوالکلام آزاد، بابائے قوم مہاتما گاندھی، سروجنی نائیڈو اور جواہر لال نہرو سمیت سرکردہ ہستیوں نے فرنگی محل میں نہ صرف قیام کیا بلکہ فرنگی محل کو متعدد بار خطوط بھیج کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔

فرنگی محل میں ایک خفیہ کمرہ آج بھی موجود ہے جہاں آزادی کے متوالے خفیہ میٹنگ کیا کرتے تھے اس حوالے سے انگریزی پولیس کا چھاپہ بھی پڑا تھا اور کچھ افراد کو جیل بھی ہوئی تھی۔

اسی طرح فرنگی محل لکھنؤ کے متعدد علماء نے انگریزوں کے خلاف آواز بلند کیا اور سزائیں کاٹیں۔

علمائے فرنگی محل آزادی کے بعد تقسیم ہند کے سخت مخالف تھے یہاں تک کے انہوں نے جناح سے کبھی ملاقات نہیں کی۔لکھنؤ کا فرنگی محل آزادی کے لیے وہ یادگار محل ہے جہاں پر آج بھی آزادی کے متوالوں کی نشانات اور گاندھی جی کے خطوط موجود ہیں۔

لیکن دن بدن عظیم وراثت کھنڈر میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، خاندان کی معاشی کمزوری کی وجہ سے اس محل کی تزئین کاری نہیں ہوپارہی ہے۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.