اردو ادب میں صنف مرثیہ نگاری اور مرثیہ گوئی کو مجالس شہدا کربلا نے حیات بقشی ہے سن 61 ہجری کے بعد سے مختلف زبان اور انداز میں مرثیے کہے اور پڑھے گئے لیکن برصغیر میں انیسویں صدی میں میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیہ نگاری نے نہ صرف اردو مرثیوں کی بنیاد کو پختہ کیا بلکہ مجالس سید الشهداء میں نثری تقاریر سے علحدہ مرثیہ گوئی کی روایات بھی قائم کی جو مخصوص انداز میں ماہ محرم اور سفر کی مجالس میں آج بھی قائم ہے۔
ماہ محرم اور غم سید الشہداء کی دوسری تاریخوں میں نثر نگاری کی مجالس کا سلسلہ عام ہے تاہم اسکے باوجود واقعہ کربلا کے بیانات اور منظر کشی کے حوالے سے مرثیہ نگاری کی اپنی ایک خاص اہمیت اور مقبولیت قائم ہے۔
ماہ محرم میں میرٹھ کے مختلف مقامات پر مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہیں، جس میں خطیب اہلبیت تقریر پیش کرتے ہیں وہیں ان مجالس میں سوز اور مرثیہ کی روایات آج بھی قائم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شہنشاہ وفا، علمبردار لشکر حسینی، حضرت عباسؓ کی زندگی پر ایک نظر
جانکاروں کے مطابق میر انیس اور مرزا دبیر کے علاوہ دیگر شعراء اہلبیت کے مرثیے بھی مجالس کی زینت ہیں سیکڑوں برسوں سے قائم یہ روایت آج بھی بدستور جاری ہے۔