علی گڑھ:ڈاکٹر ذاکر حسین اور اُن کے احباب نے 1922ء میں مکتبہ جامعہ کی بنیاد اس لیے نہیں ڈالی تھی کہ آگے جاکر اس کے ملازمین کو بنا تنخواہ کے ملازمت کرنے پر مجبور ہو جائے اور یہ سسک سسک کر دم توڑنے لگے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو صدر جمہوریہ ہند بنے تھے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے ہیں، انہوں نے اور ان کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں بزرگوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بھی اور مکتبہ جامعہ کو بھی اپنے خون پسینہ سے سینچا تھا جس کا مقصد تعلیم اور ادب پر کتابوں کی اشاعت اور اشاعت کے ذریعے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے۔
مکتبہ جامعہ کی چاروں برانچ کے تقریبا 20 ملازمین کو گزشتہ دو سال سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے جس کی جلد بحالی کے لئے گزشتہ روز دہلی کی دو اور علیگڑھ شاخ کے ملازمین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر کے نام ایک خط ان کے دفتر میں دیا ہے جس میں انہوں نے 18 تاریخ بروز پیر کو ان سے ملاقات کا وقت مانگا ہے۔ تنخواہ نہیں ملنے سے دہلی شاخ کے ملازمین رکشا چلانے کو مجبور ہو گئے ہیں۔
مکتبہ جامعہ علیگڑھ شاخ کے انچارج محمد صابر نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں بتایا جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مکتبہ جامعہ ایک دوسرے لازم اور ملزوم تھے، آزادی کے وقت مکتبہ جامعہ کے پاس پانچ لاکھ روپے تھے جس کو ضرورت پڑنے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کو دیئے تھے۔ آج اسی مکتبہ جامعہ کے ملازمین کو دو سال سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ تنخواہ سے متعلق انتظامیہ کی جانب سے اطمنان بخش جواب بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بنا تنخواہ کے ملازمت کرنے سے بہتر پریشان ہورہی ہے ہر مہینے تنخواہ کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے لیکن مایوسی ہاتھ لگتی ہے اس لئے ملازمین نے میٹنگ کرنے کے بعد گزشتہ روز وائس چانسلر سے 18 ستمبر تک ملاقات کا وقت مانگا ہے جس میں ہم اپنی تنخواہ کا مطالبہ کریں گے اور اگر ملاقات کا وقت نہیں ملتا ہے تو ملازمین دوبارہ میٹنگ کرکے فیصلہ کریں گے۔
سینئر صحافی محمد احمد شیون اور مکتبہ جامعہ کی کتابوں کے محمد سلیم نے ملازمین کی تنخواہ نہیں ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عہدیداران سے ان کی تنخواہ کی بحالی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی کتابیں کم قیمت اور معیاری مانی جاتی ہیں۔ جس میں اردو ادب، تاریخ، علمی و مذہبی کتابیں بھی شامل ہیں۔ مکتبہ کی کتابوں کی خریداری ملک کے مختلف حصوں میں کی جاتی ہے لیکن اب مکتبہ جامعہ پہلے کی طرح نہیں چل رہا ہے۔
مکتبہ جامعہ نے کئی ہزار کتابیں شائع کی ہیں اور بچوں و نوجوانوں کی ہر لحاظ سے ذہنی آبیاری کی ہے ، انہیں تعلیم کے حصول کے لیے تیار کیا اور ان کی اخلاقی و ادبی اور دینی تربیت کی ہے۔ یہیں سے ’ کتاب نما ‘ ( 1924 ) اور ’ پیام تعلیم ‘ ( 1927 ) نکلا کرتے تھے، یہ دونوں ہی ماہنامے دَم توڑ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:AMU Alumni کارگزار وائس چانسلر کے ملاقات نہ کرنے سے ناراض ہوئے سینیئر الومنائی
علیگڑھ اور ممبئی کو ملا کر کل چار شاخیں ہیں جس کے ملازمین گزشتہ دو برسوں سے بنا تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مکتبہ جامعہ کے 92 فیصد شیئر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہیں، جس کے تقریبا 20 ملازمین کی مہینے کی تنخواہ چار لاکھ روپے ہوتی ہے جو ان کو گزشتہ دو سال سے نہیں مل رہی ہے اور مکتبہ جامعہ تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپے کے نقصان میں ہے اس لئے دم توڑ رہے مکتبہ کو جلا بخشنے اور اردو کی بقاء کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کو کوئی مستحکم اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔