یکم اکتوبر 1919 کو مجروح کی 101 ویں سالگرہ کے موقع پر فلم صحافی وجے اکیلا نے 'رہیں نہ رہیں ہم مہکا کریں گے' عنوان سے مجروح پر تحریر ایک کتاب میں یہ اظہار خیال کیا۔
راج کمل پبلیکیشن سے شائع اس کتاب کے مطابق مجروح 1945 سے 2000 یعنی 55 سال تک مسلسل گیت لکھتے رہے اور اپنی زندگی میں 362 فلموں میں 2318 نغمات لکھے تھے۔
کتاب کے مطابق اترپردیش کے نظام آباد میں پیدا ہونے والے مجروح کے والد محمد حسین خان ایک پولیس کانسٹبل تھے اور وہ اعظم گڑھ میں تعینات تھے۔ وہیں انہوں نے اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم پائی۔ پھر الہ آباد یونیورسٹی سے عربی کی پڑھائی کی تاکہ انھیں اسکول میں ٹیچر کی نوکری مل جائے لیکن عالم تک پڑھنے کے بعد انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی- پھر انہوں نے لکھنؤ میں طب کی پڑھائی کی تاکہ حکیم بن جائیں۔ وہ حکیم بھی ہوئے لیکن اس زمانے کے بڑے شاعر جگر مرآدآبادی انھیں ایک مشاعرے میں بمبئی لے گئے جہاں انہوں نے شعر پڑھا- شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی۔۔۔کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا۔
اس شعر نے ان کی قسمت کا باب وا کر دیا اور جب اے آر کیدار نے یہ شعر سنا تو انہوں نے اپنی فلم ' شاہجہاں' میں نغمہ نگاری کے لیے مجروح کو تجویز دی لیکن مجروح نے اسے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ شاعری سے پیسہ کمانے کے حق میں نہیں تھے حالانکہ ان کے استاد جگر صاحب نے سمجھایا تو انہوں نے فلم شاہجہاں کے لیے چار گانے لکھے۔ اس فلم میں کندن لال سہگل نے یہ گانے گائے جو بہت ہٹ ہوئے۔ اسی فلم سے مجروح بھی مشہور ہو گئے اور پھر وہ سدا بہار نغمہ نگار بن گئے۔