شہریت ترمیمی قانون، این سی آر اور این پی آر کے خلاف کانپور کے محمد علی پارک میں خواتین کا احتجاج ایک مہینے سے چل رہا ہے۔ احتجاج میں آج اس وقت جوش پیدا ہو گیا جب سماجی کارکن سندیپ پانڈے اس احتجاج میں پہنچ گئے اور خواتین کو خطاب کرنے لگے۔
سندیپ پانڈے نے بتایا کہ ' اس قانون سے کس قدر لوگوں کو نقصان پہنچے گا۔'
انہوں نے آسام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ' 19 لاکھ لوگ این آر سی سے باہر ہوئے ہیں ۔ ان میں چودہ لاکھ غیر مسلم ہیں جو کیسے ثابت کریں گے کہ وہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آئے ہیں۔ ان کے پاس ان ممالک کے ہونے کا بھی کوئی کاغذ نہیں ہے ۔ قانون یہ بنا ہے کہ جن لوگوں کے پاس ان ممالک کے ہونے کا کوئی ثبوت ہوگا۔ انہیں لوگوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی۔ جب ان کے پاس ان ممالک کے ہونے کا کوئی ثبوت ہے ہی نہیں تو کیا یہ لوگ ڈیٹینشن سینٹر میں رہیں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اترپردیس کے کے غریب کسان جن کے پاس زمین نہیں ہے یا وہ لوگ جن کے پاس کسی وجہ سے کاغذ نہیں ہے وہ کیسے ثابت کریں گے کہ وہ اس ملک کے باشندہ ہیں۔'
سندیپ پانڈے نے کہا کہ 'خواتین کا احتجاج جائز ہے۔'
سندیپ پانڈے نے کہا کہ 'امریکہ میں گورے اور کالے نسل کے بیج چل رہی تفریقی لڑائی میں لوکتنتر کی لڑائی کالے لوگوں نے جیتی ہے اور کالے لوگوں کے ہاتھ سے ہی امریکہ کی جمہوریت مستحکم اور محفوظ ہوئی ہے۔ بھارت میں بھی بھارت کی جمہوریت مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ ہوگی۔'
کانپور میں احتجاج کو کافی ٹائم سے ضلع انتظامیہ اور پولیس ختم کرانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے اس نے کئی بار کوشش بھی کی گئی اور منتظمین کو نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
آج بھی پولیس کی خاتون افسران اسٹیج پر بیٹھی خواتین کارکنان سے بات کر رہی تھی تبھی موقع پر سندیپ بانڈے پہنچ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں خاتون پولیس افسران وہاں سے چلی گئی اور احتجاج جاری رہا ۔
کانپور کے محمد علی پارک میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف زبردست احتجاج چل رہا ہے۔ احتجاج ایک مہینے سے زیادہ سے چل رہا ہے جو کانپور کی ضلع انتظامیہ اور پولیس کے لئے سردرد بنا ہوا ہے۔ پولیس اس احتجاج کو ختم کرانے کے لئے لوگوں سے بات کر رہی ہے اور نئی نئی تدبیر بھی نکال رہی ہے۔
لیکن پولیس کے سخت رویہ کے آگے بھی احتجاج کرنے والی خواتین پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اب پولیس نے کانپور کے محمد علی پارک کے منتظمین لوگوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس احتجاج میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی کچھ خواتین کارکنان بھی شامل ہیں جو احتجاج کو بھڑکانے کا کام کر رہی ہیں۔
پولیس اس الزام میں کچھ خواتین انتظام کار کو گرفتار کرکے اس احتجاج کو روکنا چاہتی ہے لیکن خواتین کے جوش کے آگے پولیس مجبور ہے۔