ماہِ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی عزاداران شہدائے کربلا، نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور دین کی سربلندی کی خاطر ان کی قربانی کو یاد کرتے ہیں اور خصوصی تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔
لکھنؤ کا محرم ملک بھر میں اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں محرم کی پہلی تاریخ کو بڑے امام باڑے سے موم سے تیار شاہی ضریح کا جلوس اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ نکلتا ہے۔ جو ایام عزا کا اعلان تصور کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے لکھنؤ کی تاریخ پر گہرائی و گیرائی سے نظر رکھنے والے نواب میر جعفر عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اودھ کے تیسرے تاجدار محمد علی شاہ نے 1867 میں حسین آباد ٹرسٹ قائم کیا اور اس ٹرسٹ کے تحت ضریح کا شاہی جلوس برآمد ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ موم سے تیار کیا جاتا ہے۔ جو اپنی شاہی شان و شوکت کے ساتھ آصفی (بڑے) امام باڑے اور گول دروازہ ہوتے ہوئے گھنٹہ گھر کے سامنے سے چھوٹا امام باڑے میں رکھا جاتا ہے اور یہی ضریح محرم کی دسویں تاریخ کو شہر کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے روضۂ کاظمین میں دفن کی جاتی تھی۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے نامساعد حالات کے پیش نظر اب یہ جلوس شہر کی شاہراہوں پر نہیں نکالا جاتا، جس کے لئے شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی یہ جلوس نکالا جاتا ہے اور 6 ماہ قبل ہی یہ موم کی ضریح تیار کرنے کے لئے کاریگر آجاتے ہیں اور چھوٹے امام باڑے بڑے میں کاریگر تیار کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس جلوس میں جو ترتیب محمد علی شاہ نے دی تھی وہی ترتیب آج بھی باقی ہے اور اسی طرز پر پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوس نکالا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:ملک کے مختلف شہروں میں یوم عاشورہ کی مجالس
اس جلوس میں ضریح، ہاتھی، گھوڑے، اونٹ، بڑھیا کا تعزیہ، پولیس کا بینڈ اور پرائیویٹ بینڈ پر ماتمی دھن بجائی جاتی ہے اور یہی جلوس ایام عزا کا اعلان بھی سمجھا جاتا ہے۔