لبرہن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کو مسمار کرنے کا منصوبہ پہلے سے ہی بنایا گیا تھا اور اسے منظم طریقے سے انجام دیا گیا اور سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے جان بوجھ کر فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنا مقصد تھا۔
لبرہن کیمیشن نے اپنی رپورٹ میں 68 لوگوں پر بابری مسجد کو منہدم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا تعلق راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی سے تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت کے اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ، ان کے وزراء اور ان کے کچھ بیوروکریٹس دوستوں نے مل کر تباہ کن حالات پیدا کیے، جس کے نتیجے میں متازعہ ڈھانچے کو مسمار کرنے کے کام کو انجام دیا گیا ہے اور ساتھ میں پورے ملک میں دو مذہبی طبقات کے مابین میں قتل و غارت کا کھیل کھیلا گیا۔ انہوں نے جان بوجھ کر فرقہ وارانہ صورتحال پیدا کرنے اور انتشار پھیلانے کا کام کیا۔
اس کے برعکس ایودھیا تنازعہ کو حل کرنے کے لیے کئی ابتدائی طور پر کئی قدم اٹھائے گئے، جسیے سنہ 1986: کانچی کامکوٹی کے اس وقت کے شنکر آچاریہ اور مسلم پرسنل لا بوڑد کے صدر علی میاں ندوی کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا گیا، لیکن وہ بھی ناکام رہا۔
سنہ 1990:پھر وزیراعظم چندر شیکھر نے دونوں جماعتوں کے مابین صلح کروانے کی کوشش کی، لیکن وی ایچ پی کے مبینہ رضاکاروں نے مسجد کے ایک حصے کو نقصان پہنچا کر اس امن مذاکرات خلل پیدا کردی۔
جون 2002: آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واچپئی نے بھی اس معاملے کو حل کرنے کی پہل کی۔ انہوں نے اپنے دفتر میں ایک ایودھیا سیل قائم کیا اور پارٹی کے سینئر عہدیدار شتروگھن سنہا کو ہندؤ اور مسلم رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کروانے کی ذمہ داری سونپی، لیکن یہ بھی ناکام ہی ثابت ہوا۔
سنہ 2003:بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے کانچی شنکر آچاریہ نے ایک اہم کوشش کی لیکن ان کے ذریعہ اے آئی پی ایل ایم بی کو خط بھیجنے کے بعد یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
رام جنم بھومی تحریک نے بی جے پی کی قسمت بدل دی:
80 کی دہائی کے اوائل میں وشو ہندو پریشد نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک کی شروعات کی، اس کے بعد وی ایچ پی نے رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل کی۔
اٹل بہاری واچپئی، لال کرشن اڈونی، مرلی منوہر جوشی کی قیادت میں سنہ 1980 کو بھارتی جنتا پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس وقت انہوں نے اعتدال پسند حکمت عملی اپنائی تھی لیکن سنہ 1984 کے انتخابات میں کوئی بھی اثر پیدا کرنے میں ناکام ہونے کے نتیجے میں انہوں نے پارٹی کے نظریہ کو بدل دیا۔
سنہ 1984 میں ، ایل کے اڈوانی کو بی جے پی کا صدر مقرر کیا گیا تھا اور ان کی قیادت میں ہی پارٹی رام مندر کی تحریک کے لئے ایک سیاسی آواز بن کر سامنے آئی۔ "