علی گڑھ: ''ہم جس ٹکنالوجی کی دنیا میں رہتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ فیس بک، ٹویٹر، اسنیپ چیٹ، یوٹیوب، اور انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا سائٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ان سائٹس کے اپنے فوائد ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کبھی بھی حقیقی زندگی کے تعاملات کی جگہ نہیں لے سکتا اور ان پر زیادہ وقت گزارنے سے انسان خود کو تنہا محسوس کر سکتا ہے اور وہ دماغی صحت کے مسائل جیسے بے چینی، ڈپریشن، اے ڈی ایچ ڈی، جذباتی کمزوری وغیرہ کا شکار ہوسکتا ہے“ ان خیالات کا اظہار سنیتا بی مینیم (مرسر یونیورسٹی، جارجیا) نے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ کے زیر اہتمام فرینک اینڈ ڈیبی اسلام آڈیٹوریم میں ''سوشل میڈیا اور دماغی صحت'' موضوع پر خطبہ دے رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کلینیکل کاؤنسلر اور سینئر ریسرچ فیلو، فاؤنڈیشن فار ایویڈینس بیسڈ ریسرچ ان انڈیا، Foundation for Evidence-based Research in India (FEDI) پروفیسر مینیم نے شہریوں، خاص طور پر نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے دماغی اثرات پر طویل گفتگو کی۔ انھوں نے بے چینی، ڈپریشن، توجہ کی کمی، اور نوجوانوں میں پائے جانے والے دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا، اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح کووڈ-19 وبا کے دوران دماغی صحت کے مسائل پیدا ہوئے۔
انہوں نے سوشل میڈیا کی وجہ سے ہونے والی الجھنوں اور افسردگی سے نمٹنے کے لیے مشاورتی تکنیکوں پر بھی روشنی ڈالی اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر قابو پانے کے لیے مراقبہ، فوکس، گھر میں گفتگو، آؤٹ ڈور واک وغیرہ کا مشورہ دیا۔ اس موقع پر فاؤنڈیشن فار ایویڈینس بیسڈ ریسرچ ان انڈیا کے سکریٹری ڈاکٹر داؤد سلیم فاروقی نے سوشل میڈیا کی ہماری زندگیوں پر غلبہ کے پیش نظر اس طرح کے خطبات اور پروگراموں کی اہمیت پر زور دیا۔