دہلی: مانسون اجلاس کے دوران گذشتہ روز رکن اسمبلی کنور دانش علی نے وزارت تعلیم، حکومت ہند سے اتر پردیش کی یونیورسٹیوں میں مسلم طلبہ کے داخلے میں کمی کے بارے میں سوال کیا، جس کے حوالے سے کنور دانش علی نے کہا کہ تازہ ترین اے آئی ایس ایچ ای کے مطابق مسلم طلبہ کے داخلے 2019-20 کے مقابلے 2020-21 کی فیصد میں 8٪ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
وہیں اترپردیش میں مسلم طلباء کے اندراج میں 16% کمی آئی ہے جو کہ بدقسمتی کی بات ہے۔ حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ہے۔کنور دانش علی نے اپنے سوال میں پوچھا کہ کیا آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن نے ظاہر کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم طلباء کے اندراج میں 8 فیصد کمی آئی ہے اور 20 فیصد مسلم آبادی والے اتر پردیش میں سب سے زیادہ 36 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہے؟ اور مذکورہ اندراج میں اس طرح کی کمی کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں، وزارت تعلیم، حکومت ہند میں وزیر مملکت ڈاکٹر سبھاش سرکار نے کہا ہے کہ تازہ ترین اے آئی ایس ایچ ای 2020-21 کے مطابق، سال 2020-21 میں مسلم طلباء کے اندراج میں سال 2019-20 کے مقابلے میں 8% کی کمی آئی ہے اور اتر پردیش میں مسلم طلباء کے اندراج میں 16% کی کمی آئی ہے۔ تاہم مسلم طلباء کا داخلہ 17,39,218 (اے آئی ایس ایچ ای 2016-17 کے مطابق) سے بڑھ کر 19,21,713 (ائے آئی ایس ایچ ای 2020-21 کے مطابق) ہو گیا ہے، جو ملک بھر میں 1,82,495 (10.5%) کا اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: مسلمانوں کا اعلی تعلیم سے منہ موڑنا سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی سے دوری کا باعث
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم طالبات کی تعداد مرد مسلم طلباء سے زیادہ ہے۔ وزیر کا یہ دعویٰ کہ حکومت اقلیتی امور کی وزارت کی اسکالرشپ/فیلوشپ اسکیموں کے ذریعے اقلیتی طلبہ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، حقائق کے بالکل برعکس ہے اور ان کی اپنی حکومت سے متصادم ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے پچھلے سال پہلی سے کلاس 8 تک اقلیتی طلبہ کو دی جانے والی پری میٹرک اسکالرشپ کو پہلے ہی ختم کردیا ہے کیونکہ اسے اقلیتی طلبہ کی تعلیم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔