کووڈ 19 کے بڑھتے ہوئے کیسز کو مدنظر رکھتے ہوئے اترپردیش صوبے کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حکم جاری کیا تھا کہ جن شہروں میں کورونا وبا کے مریضوں کی تعداد زیادہ نکل رہی ہے وہاں کے ضلع مجسٹریٹ کو یہ اختیار تھا کہ وہاں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں رات کا کرفیو لگا سکتا ہے اور ضروری اقدامات بھی کر سکتا ہے۔
اسی زمرے میں یہ بھی حکم جاری ہوا تھا کہ شادی بیاہ کے پروگرام اگر ہال میں کیے جائیں گے تو پچاس افراد ہی اس شادی میں شرکت کر سکیں گے اور اگر یہی پروگرام کھلے میدان میں ہوگا تو وہاں سو آدمی شرکت کر سکیں گے۔ اسی بات کو لےکر علمائے کرام نے ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ میٹنگ کرکے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ مسجد بھی ایک ہال کی شکل ہوتی ہے جہاں پر پچاس آدمی مسجد میں آسانی سے سماجی دوری کے قانون پر عمل کرتے ہوئے نماز پڑھ سکتے ہیں، جس پر ضلع مجسٹریٹ نے اپنی رضامندی بھی ظاہر کردی تھی۔
فیصلے کے مطابق منگل کی رات تمام مسلمان مساجد میں تراویح کی نماز پڑھنے کے لئے اکٹھا ہو گئے۔ لیکن دوسری جانب تمام مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ورچوئل میٹنگ ہوئی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ مساجد میں 5 سے زائد افراد ایک وقت میں نماز نہیں ادا کریں گے۔ جس پر شہر قاضی نے مجبوراً حکمت عملی کے تحت یہ حکم جاری کیا کہ مساجد میں ایک وقت میں پانچ سے زائد نمازی ایک ساتھ نماز نہ ادا کریں۔ جن لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھنی ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں یا کسی ہال میں کم مجمع کے ساتھ تراویح کا اہتمام کریں۔
صوبے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ورچول میٹنگ کے بعد جو فیصلہ لیا گیا ، اسے کانپور ضلع انتظامیہ جب تک صادر کرتا تمام نمازی مساجد کو پہنچ چکے تھے اور پہلے دن تراویح کی نماز ادا کی گئی، لیکن اب ضلع مجسٹریٹ نے تمام مساجد کے لئے یہ سرکلر جاری کر دیا ہے کہ پانچ افراد سے زائد لوگ ایک وقت میں نماز نہیں ادا کر سکیں گے۔ اس فیصلہ پر عوام میں تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ ایک وقت میں شادی بیاہ کے پروگرام کے لئے پچاس لوگ ایک ہال میں اکٹھا ہو سکتے ہیں تو مسجد میں پچاس لوگ نماز کے لیے کیوں نہیں اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ یوگی ادتیی ناتھ کے اس فیصلہ کو لوگ مذہبی منافرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔