اس مسجد کی تعمیر سلطان الشرق خواجہ جہاں کی دور حکومت میں ابراہیم نائب باربک نے 1377 میں کروائی تھی۔ اس کے اندر تین چھوٹے چھوٹے گنبد بھی ہیں، مرکزی حصہ کے دائیں اور بائیں کنارے پر خوشنما پتھروں سے بنے حسین مینار کھڑے ہیں۔ ان میناروں کی اونچائی تقریباً 30 فٹ ہے جو دیکھنے میں جاذب نظر معلوم ہوتے ہیں۔
مسجد کے اندر وسطی محراب پر قرآن کی آیات ابھرے خط میں کَندہ ہے، مسجد کے فن پارے، نقش و نگار، پھول پتیاں محراب و منبر شرقی فنکاری کی زندہ مثال پیش کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کو محو حیرت کر دیتے ہیں۔
یہ مسجد اندرون قلعہ میں مشرقی دروازے سے کافی بلندی پر واقع ہے۔ فی الحال عوام میں اسے قلعہ والی مسجد کے نام سے جانا و پہچانا جاتا ہے۔
مسجد کی چوڑائی 22 فٹ اور لمبائی 130 فٹ ہے اور مسجد کے صحن میں جنوب کی طرف ایک گول اونچے چبوترے پر تقریباً 40 فٹ بلند پتھر کا ایک ستون نصب ہے، جس کے چہار جانب خط طغری میں قرآنی آیات و حدیثِ نبوی کندہ ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر میں لال پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ مسجد آثارِ قدیمہ کی زیرِ نگرانی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے تاریخ کے جانکار عرفان جونپوری نے بتایا کہ یہ مسجد اپنی خوبصورتی و قدیم ہونے کے لحاظ سے منفرد شناخت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شاہی قلعہ کی اِس وقت مرمت تو ہو رہی ہے مگر مسجد کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے پتھر کالے پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مسجد میں صرف جمعہ اور رمضان المبارک میں شبینہ ادا کرنے کی اجازت ہے، اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ پنج وقتہ نمازوں کی اجازت دے۔
مزید پڑھیں:
کیمور: قالین کے کاریگر فاقہ کشی کے دہانے پر
انہوں نے مزید بتایا کہ مسجد میں کھڑے پتھر کے ستون کے حوالے سے عوام میں ایک بات رائج ہے کہ اس پر لکھی عبارت کو پڑھنے سے خزانہ ملے گا، اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تاریخی کتابوں میں بھی اس کی صراحت بھی کی جا چکی ہے۔