لکھنؤ: جمعیت علماء ہند کے قومی جنرل سیکرٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمومی رائے یہ ہے کہ ریاست ہریانہ کے نوح ضلع میں فرقہ وارانہ فساد ہوئے ہیں جہاں پر کثیر تعداد میں ہندو اور مسلمان متاثر ہوئے ہیں لیکن یہ غلط ہے بلکہ یہ ہریانہ کے پلول ضلع گروگرام اور اس کے علاوہ کئی علاقے متاثر ہوئے ہیں جہاں پر لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو دنگائیوں نے نذر آتش کیا ہے اور لوٹ لیا ہے۔ جمیعت علماء فساد متاثرین کے بازآباد کاریوں کے لیے کوششیں کر رہی ہیں ہم لوگ مسلسل نوح علاقے میں دورہ کر رہے ہیں، انتظامیہ سے بات چیت کر رہے ہیں تاکہ دونوں قوموں کے درمیان آپسی صلح سمجھوتے ہو، بھائی چارگی کا ماحول بن سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہریانہ حکومت نے جس طریقے سے مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں اور یکطرفہ بلڈوزر کی کاروائی کی ہے وہ قابل تشویش ہے، لائق مذمت ہے۔ جن لوگوں کا فساد سے کوئی تعلق نہیں تھا ان کے گھر کو بلڈوزر سے ڈھایا گیا ان کے بچے گرفتار ہوئے ہیں۔ جمعیت علماء گرفتار شدہ افراد کے کیس کی پیروی بھی کر رہی ہے ہم نے لیگل سیل بنایا ہے جس کے تعلق سے وکلاء کیس کی پیروی کریں گے اور امید ہے کہ ان کی ضمانت جلد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ریاست ہریانہ کے نوح ضلع میں جس طریقے سے فساد ہوا اس سے قبل فسادیوں نے ویڈیو وائرل کی تھی اور بیانات جاری کیے تھے، حکومت کو ان افراد کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے تھی لیکن مونو مانیسر کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء کے وفد نے منی پور کا بھی دورہ کیا ہے جہاں پر تقریبا 300 مسلم خاندان فساد سے متاثر ہیں ان کے گھر جلا دیے گئے ہیں ان میں کئی افراد زخمی ہیں جن میں سے ایک کو دہلی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور باقی افراد کی منی پور میں ہی مدد کی جا رہی ہے یا تو کیمپ کے ذریعے ان کی باز آباد کاری کی جائے گی یا کوئی دوسرا راستہ نکال کر کے ان کی ان کی مدد کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ہریانہ میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی افسوسناک، سلیم انجینئر
انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء کی پوری ٹیم کی کوشش ہے کہ فساد متاثرین کی بھرپور مدد کی جائے۔ یونیفارم سول کوڈ پر بھی انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علماء اس کی حمایت قطعا نہیں کر رہی ہے، حکومت اس معاملے پر خاموشی کا مظاہرہ کر رہی ہے، ابھی تک کوئی ڈرافٹ نہیں آیا اس لیے اب تک کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یو سی کا نفاذ ملک کے لیے خطرناک ہے، ملک کے بھائی چارہ گنگا جمنی تہذیب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔