ملک و بیرون ملک سے مؤرخین اس مسجد کی زیارت کرنے آتے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد ایک ہزار برس پرانی ہے، اس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر بھارتی حکومت نے محکمہ آثار قدیمہ کے تحت اس مسجد کے تحفظ و تجدید کاری کی تجویزپیش کی تھی۔ لیکن حکومت کی اس تجویز کو مسجد کے متولیوں نے مسترد کردیا۔
ایک طرف جہاں یہ مسجد اپنے دامن میں ہزاروں برس کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے، وہیں آج بھی اس کی عمارتیں فن تعمیر کی اعلی شاہکار ہیں۔
اس کی دیواروں کی چوڑائی تقریباً 9 فٹ ہے، مسجد کے تین خوبصورت گنبد اور دو عالی شان میناریں اس کے حسن کو دوبالا کررہی ہیں۔
مسجد کی تزئین اور اس کے تحفظ کا انتظام و انصرام عوام کے چندے سے ہوتا ہے، مسجد کی وسعت اتنی ہے کہ ایک بار میں پانچ ہزار فرزندان توحید ایک ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ وضو کے لیے مسجد کے صحن میں قدیم زمانے کے طرز پر خوبصورت حوض تعمیر کیا گیا ہے جو مسجد کی رونق میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
اس مسجد کو سلطان محمود غزنوی نے میرٹھ کی سرزمین میں تقریبا 1019 عیسوی میں تعمیر کرانےکا اعلان کیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے اس مسجد کی بنیاد اپنے وزیر حسن محمود سے رکھوایا تھا۔ اس کے بعد 1030 عیسوی میں سلطان محمود غزنوی کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد سلطان نصیرالدین التمش نے 59 برس کے بعد مسجد کی تعمیر کا سلسلہ دوبارہ شروع کرکے مسجد کو مکمل کیا۔