ETV Bharat / state

بابری مسجد کیس: 'دوبارہ عرضی داخل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں' - ہائی کورٹ میں بابری مسجد کیس

6 دسمبر سنہ 1996 میں ہوئے بابری مسجد انہدام معاملے میں سی بی آئی کی عدالت نے تمام ملزمین کو ثبوتوں کی کمی کی بنا پر بری کر دیا تھا۔

author img

By

Published : Jan 9, 2021, 5:42 PM IST

اسی سلسلہ میں ایک بار پھر سی بی آئی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں بابری مسجد کیس کے پیروکار حاجی محبوب اور حاجی سید اخلاق احمد نے دوبارہ غور کرنے کی ایک عرضی داخل کی ہے۔

تقریباً 5 دہائی تک بابری مسجد کے مقام پر رام مندر معاملے میں انصاف پانے کے لیے پیروی کرنے والے کیس کے مدعی رہے مرحوم ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے اس معاملے میں دوبارہ غور کرنے کی عرضی داخل کرنے پر اعتراض کیا ہے۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس کا مقصد محض ایک نئے تنازع کو جنم دینا اور سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ جب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس مقام پر رام کا مندر تھا اور وہاں رام مندر کا تعمیری کام بھی شروع ہو چکا ہے تو اب پھر سے نئی عرضی داخل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔عرضی داخل کرنے والے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مجروح کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایودھیا میں تنازع کی جو سب سے بڑی وجہ تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔

آج ایودھیا ہی نہیں پورے ملک کے مسلم ہندو متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے، ایسے میں اتنے دنوں بعد ایک بار پھر سے اس کیس کے تعلق سے ہائی کورٹ میں دوبارہ غور کرنے کی عرضی داخل کرنا بیوقوفی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے طویل مدت تک اس مقدمہ میں پیروی کی ہے تاہم انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کیا ہے۔ یہ مانا ہے کہ اس مقام پر رام کا مندر تھا اور وہ رام للا کی جنم بھومی ہے۔ پورے ملک کے مسلمان عدالت عظمی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ایسے میں پھر سے اب ایک نئے تنازع کو جنم دینا قطعی درست نہیں ہے۔

سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 28 برس قبل بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام ملزمین کو بری کیا جاتا ہے۔

خصوصی عدالت کے جج کا مزید کہنا تھا کہ اس مقدمے میں نامزد ملزمین کے اس معاملے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔

واضح رہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

قانون کے مطابق عدالت کی جانب اس کیس کا فیصلہ سنانے کے وقت اِس مقدمے میں نامزد تمام 32 ملزمین کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب بیشتر ملزمین، جن کی عمریں زیادہ ہیں، ویڈیو کانفرینسگ کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سنا۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ سے چینی فوجی حراست میں لیا گیا

اس مقدمے کے ملزمین میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان شامل تھے۔

اسی سلسلہ میں ایک بار پھر سی بی آئی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں بابری مسجد کیس کے پیروکار حاجی محبوب اور حاجی سید اخلاق احمد نے دوبارہ غور کرنے کی ایک عرضی داخل کی ہے۔

تقریباً 5 دہائی تک بابری مسجد کے مقام پر رام مندر معاملے میں انصاف پانے کے لیے پیروی کرنے والے کیس کے مدعی رہے مرحوم ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے اس معاملے میں دوبارہ غور کرنے کی عرضی داخل کرنے پر اعتراض کیا ہے۔

انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس کا مقصد محض ایک نئے تنازع کو جنم دینا اور سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ جب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس مقام پر رام کا مندر تھا اور وہاں رام مندر کا تعمیری کام بھی شروع ہو چکا ہے تو اب پھر سے نئی عرضی داخل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔عرضی داخل کرنے والے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مجروح کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایودھیا میں تنازع کی جو سب سے بڑی وجہ تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔

آج ایودھیا ہی نہیں پورے ملک کے مسلم ہندو متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے، ایسے میں اتنے دنوں بعد ایک بار پھر سے اس کیس کے تعلق سے ہائی کورٹ میں دوبارہ غور کرنے کی عرضی داخل کرنا بیوقوفی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے طویل مدت تک اس مقدمہ میں پیروی کی ہے تاہم انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کیا ہے۔ یہ مانا ہے کہ اس مقام پر رام کا مندر تھا اور وہ رام للا کی جنم بھومی ہے۔ پورے ملک کے مسلمان عدالت عظمی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ایسے میں پھر سے اب ایک نئے تنازع کو جنم دینا قطعی درست نہیں ہے۔

سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج ایس کے یادو نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 28 برس قبل بابری مسجد کا انہدام کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام ملزمین کو بری کیا جاتا ہے۔

خصوصی عدالت کے جج کا مزید کہنا تھا کہ اس مقدمے میں نامزد ملزمین کے اس معاملے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔

واضح رہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔

قانون کے مطابق عدالت کی جانب اس کیس کا فیصلہ سنانے کے وقت اِس مقدمے میں نامزد تمام 32 ملزمین کو عدالت میں حاضر رہنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب بیشتر ملزمین، جن کی عمریں زیادہ ہیں، ویڈیو کانفرینسگ کے ذریعے عدالت کا فیصلہ سنا۔

یہ بھی پڑھیں: لداخ سے چینی فوجی حراست میں لیا گیا

اس مقدمے کے ملزمین میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، سابق مرکزی وزرا مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان شامل تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.