علیگڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے جے این ایم سی آڈیٹوریم میں سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ایرانی مفکر اور ایرانی پارلیمنٹ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حداد عادل نے کہاکہ مغربی افکار اور طرز زندگی نے مشرقی دنیا میں کنبہ کے تصور کو منفی طور سے متاثر کیا ہے جس سے انفرادی اور سماجی سطح پر قدروں کا زوال ہوا ہے۔ اسلامی اور قدیم ہندوستانی افکار میں مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خدا کا تصور انسانی زندگی میں ہر سطح پر رہنمائی کرتا ہے، اس سے انسان جواب دہ بنتا ہے اور وہ سماج کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل اور کائنات کے دیگر اشیاء کے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر عادل نے لائف اسٹائل کو لٹریری اسٹائل سے تشبیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ طرز زندگی کا اندازہ انسان کے کردار، گفتار، تعامل اور کائنات کے مظاہر کے ساتھ اس کے برتاؤ سے ہوتا ہے اور جس طرح سے انسان کی لائف اسٹائل ہوتی ہے ویسے ہی معاشرے کی بھی لائف اسٹائل ہوتی ہے، جس کی تشکیل و ترتیب میں مذہب کا اہم کردار ہے۔ انھوں نے شہزادہ دارا شکوہ کی تصنیف مجمع البحرین کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ مغلیہ دور میں انسان و کائنات کے سلسلہ میں قدیم ہندوستانی افکار و نظریات کو سمجھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی یہ ایک عدیم المثال کوشش تھی۔
مہمان اعزازی، بوہرہ مذہبی رہنما قصے بھائی صاحب جمال الدین نے اپنے خطاب میں کہاکہ محبت سے انسانوں میں تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، محبت و خیرخواہی کا دائرہ صرف دینی بھائیوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہونا چاہئے۔ انھوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات و قدرتی وسائل کے تئیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔ دوسرے مہمان اعزازی آیت اللہ مہدوی پور نے کہاکہ اسلام زندگی کے سبھی پہلوؤں میں معاشرے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی کردار کا مظاہرہ کرنے پر خاص زور دیتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ امام زین العابدین نے والدین، ہمسایہ اور حیوانات سمیت 110ایسے حقوق کی تاکید کی ہے جو ہمیں ادا کرنے چاہئیں۔ انھوں نے کہاکہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کو مرکزیت حاصل ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سیمینار مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور افہام و تفہیم کو فروغ دے گا۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کے سابق شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا فال نیک ہے، کیوں کہ انٹرفیتھ ڈائیلاگ آج کے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ پروفیسر منصور نے سیمینار کے انعقاد کے لئے پروفیسر علی محمد نقوی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ بات چیت اور ڈائیلاگ سے ہی تنازعات و خلفشار کا حل نکل سکتا ہے اور ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل پروفیسر علی محمد نقوی، بانی ڈائرکٹر، علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ طرز زندگی کے سلسلہ میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے خیالات حاضرین کے لئے مشعل راہ ہوں گے اور یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ انسانی معاشرہ میں مذہب کس طرح ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔ عیسائی رہنما فادر ڈاکٹر ایم ڈی تھامس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خدا میں یقین کا نام روحانیت ہے اور انسان کو اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی گہرا تعلق رکھنا چاہئے۔اس سے سماج میں امن و بھائی چارہ کو فروغ ملے گا۔
جین مذہبی رہنما شری وویک مُنی نے اپنے خطاب میں کہاکہ جیو اور دینے دو زندگی کا فلسفہ ہونا چاہئے۔بات چیت اور سنواد کے ذریعہ ہی اختلافات کا حل نکل سکتا ہے۔انھوں نے مہاویر جین کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ رحم کا جذبہ اور پریم انسانوں کو جوڑتا ہے، آج پوری دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے ہمارے اپنے مذہب کی بدنامی ہو۔
اسکان کے نائب صدر ڈاکٹر برجیندر نندن داس نے اپنے خطاب میں کہا کہ آتما کو صحت مند غذا دینا چاہئے۔ انسان اپنے جسم کو صحت مند رکھنا چاہتا ہے جو کافی نہیں، گیتا کی تعلیمات آتما کو تندرست رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ آج کے دور میں زیادہ تر لوگ آتما اور شریر کے فرق کو نہیں جانتے، جس کی وجہ سے جہالت اور نادانی کا بول بالا ہے۔انھوں نے سنسکرتی اور سنسکاروں کے تحفظ پر زور دیا۔
سیمینار کے دوسرے نشست کی صدارت کارگزار وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کی۔ انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سیموئل پی ہٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ نے دنیا کو گمراہ کیا۔ تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور مذاکرہ کا تصور انسانیت کی ضرورت تھی اور آج بھی اس کی ضرورت و افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے موجودہ وقت میں روس، یوکرین جنگ اور فلسطین و اسرائیل کے ٹکراؤ اور ظلم و بربریت کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کی کوششوں کو عوام تک پہنچانا چاہئے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ٹکراؤ اور جنگ سے پرہیز کیا جائے۔ انھوں نے اس سلسلہ میں مذہبی رہنماؤں کی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کو اہم قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم خاتون پر گولی چلانے والے ملزم انسپکٹر کے خلاف بلڈوزر کاروائی کا مطالبہ
قومی کمیشن برائے درج فہرست اقوام کے سابق چیئرمین لاما چوسفیل زوٹپا نے اپنے خطاب میں کہاکہ سبھی دھرموں کے لوگوں میں شانتی اور بھائی چارہ ہونا چاہئے۔ انھوں نے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کا ذکرکیا اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا۔ کویت سے تشریف لائے حاجی مصطفی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مشرقی اقدار معاشرے کے لئے قیمتی ہیں اور مغربی اثرات اور نام نہاد ترقی کے نام پر اپنے معاشرے کو بگڑنے سے بچانا ہوگا۔ سیمینار کے بعد کی نشست میں الزہرا یونیورسٹی، ایران کی ڈاکٹر طیبہ مہروزادے سمیت دیگر کئی اسکالرز نے خطاب کیا۔