لکھنؤ: اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں ایک نوجوان کو بغیر کسی جرم کے قتل کے الزام میں سات سال تک جیل میں رہنا پڑا۔ اس کی وجہ پولیس کی غلط تفتیش بتائی گئی ہے۔ اب نیشنل ہیومن رائٹس نے یوپی کے ڈی جی پی کو نوٹس جاری کرکے معاملے کی جانچ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انکوائری رپورٹ 4 ہفتوں میں کمیشن کے سامنے پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ کمیشن نے یہ حکم وکیل اور انسانی حقوق کارکن رادھاکانت ترپاٹھی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیا ہے۔ Boy Jailed For Seven Years in Girl Murder Case
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن رادھاکانت ترپاٹھی نے کہا کہ 17 فروری 2015 کو یوپی کے علی گڑھ ضلع کے دھنتھولی گاؤں کے ایک کسان نے گونڈا پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی شکایت دی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی 10ویں جماعت میں زیر تعلیم 17 سالہ بیٹی لاپتہ ہے۔ والد نے اس کی گمشدگی کے پیچھے گاؤں کے وشنو پر شبہ ظاہر کیا۔ پولیس نے دفعہ 363 اغواء اور دفعہ 366 کے تحت شادی کے بہانے اغواء کا مقدمہ درج کر لیا۔ تقریباً ایک ماہ بعد 24 مارچ 2015 کو پولیس نے ایک لڑکی کی لاش برآمد کی۔ دھنتھولی گاؤں کے کسان نے جس نے گونڈا پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی لاش کی شناخت اپنی بیٹی کے طور پر کی۔ جس کے بعد پولیس نے وشنو کو گرفتار کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: این ایچ آر سی نے یوپی کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو بھیجا نوٹس
پولیس نے کیس میں قتل کی دفعہ 302 بھی شامل کی اور وشنو پر شواہد کو تباہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ دسمبر 2022 میں معلوم ہوا کہ جس لڑکی کے قتل کے الزام میں وشنو کو گرفتار کیا گیا وہ زندہ ہے۔ ایڈوکیٹ رادھا کانت کے مطابق اس معاملے میں ایک بے قصور نوجوان کو بغیر کسی جرم کے اپنی زندگی کے 7 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے۔ رادھا کانت نے کہا کہ ان کی زندگی کے یہ سات سال ان معصوم نوجوانوں کو کون واپس کرے گا جنہیں پولس کی غلط تفتیش کا خمیازہ بھگتنا پڑا؟ کوئی لوٹا نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس کا معاوضہ ملنا چاہئے۔ ایسے میں انسانی حقوق کمیشن نے یوپی کے ڈی جی پی سے اس معاملے کی تحقیقات کرکے چار ہفتوں میں رپورٹ داخل کرنے کو کہا ہے۔