ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کا پرانا شہر ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں متعدد محلے ہیں اور یہاں اقلیتی آبادی اکثریت میں رہتی ہے جبکہ نئے شہر میں اکثریتی طبقے کی آبادی ہے۔
اب پرانے شہر کے لوگوں کو تکلیف یہ ہے کہ اُن کے علاقے کی سڑک نئے شہر والوں کی سڑکوں کے موازنہ میں خستہ حال کیوں ہیں۔
بریلی میونسپل کارپوریشن کے اعلیٰ افسران سے بھی کئی مرتبہ تحریری شکل میں شکایت بھی کی گئی ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے یہاں کی سڑکوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ان چار برسوں میں سرکار کے ذریعے کرائے گئے ترقیاتی کاموں کی فہرست لے کر تمام وزراء شہر در شہر عوام سے مخاطب ہیں لیکن کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں کے باشندے حکومت کی اس فہرست سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ علاقوں میں ترقی کے نام پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔
دراصل بریلی میونسپل کارپوریشن کے دائرے میں کل 60 وارڈ آتے ہیں، جن میں آدھے سے زیادہ وارڈز میں کارپوریٹر بی جے پی کے ہیں۔
عوام کا الزام ہے کہ اب لکھنؤ سے جو بجٹ جاری ہوتا ہے، اُس بجٹ کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کارپوریٹرز اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کرا لیتے ہیں جبکہ باقی شہر میں درجنوں ترقیاتی کام ہونا باقی رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پرانے شہر میں سڑک، سیور اور پانی جیسے بنیادی مسائل اپنی جگہ قائم ہیں۔
بریلی میں صوفی ٹولہ، قاضی ٹولہ، روہلی ٹولہ، کانکر ٹولہ، سیلانی، عنایت گنج بزریہ، نوادہ شیخان، نوادہ جوگیان، شاہ دانہ، قریش نگر اور شہامت گنج ایسے علاقے ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 سے 80 فیصد تک ہے اور یہاں بنیادی ترقیاتی کام نہیں کرائے جا رہے ہیں۔
خاص طور پر گزشتہ چار برسوں میں تو حالت زیادہ خراب ہوگئی ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں مسلم علاقوں میں رہنے والے باشندوں کے ساتھ دہرا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
بہرحال پرانہ شہر کے لوگوں کا اس بات پر معترض ہونا لازمی ہے کہ جب وہ ٹیکس بھی برابر ادا کرتے ہیں اور ان کی رہائش بھی دیگر شہریوں کی مانند ہے تو پھر ان کے ساتھ دہرا رویہ کیوں اختیار کیا جارہا ہے۔