علیگڑھ: ریاست اترپردیش کا ضلع علی گڑھ محض اس لیے اپنی منفرد شناخت نہیں رکھتا کہ یہاں پر تعلیم کے لیے سرسید نے ایک درخت لگایا تھا جس سے قوم استفادہ کررہی ہے بلکہ یہ شہر اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں تالے کے ساتھ ہارڈ ویئر کی مختلف اشیاء بھی تیار کی جاتی ہے جو بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مضبوطی کے سبب اپنی علیٰحدہ پہچان رکھتی ہے۔ Impact of Inflation on Aligarh Lock Industry
علی گڑھ کو تعلیم اور تالوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ علیگڑھ میں مسلم یونیورسٹی اور تالوں کے کاروبار سے کبھی بڑی خوش حالی ہوا کرتی تھی لیکن آج کل اس شہر کو مہنگائی کی نظر لگ گئی ہے۔ شاید اسی لیے اب یہاں کے تالے اور ہارڈویئر کے کاریگر پریشانیوں کے شکار ہیں کیونکہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے کاریگر مہنگائی سے نبرد آزما تو ہے ہی ساتھ میں تالوں پر لگنے والی 18 فیصد گڈ اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) بھی جان کھارہی ہے خاص کر چھوٹے پیمانے کی صنعت کی پیداوار اور ان میں کام کرنے والا مزدور طبقہ کافی متاثر ہو رہا ہے۔
علیگڑھ شہر کے علاقے میں ایک بڑی آبادی مزدور طبقے کی ہے جو تالوں کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں مزدوری کرتی ہے جس میں خواتین بھی شامل ہے جن کو اب مہینے میں تیس دن کے بجائے بمشکل دس سے پندرہ دن ہی کام مل پاتا ہے۔ تالوں کے کارخانوں میں کام کرنے والے خاتون و کاریگروں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دن بدن کارخانوں میں کام ملنا کم ہوتا جا رہا ہے جہاں پہلے مہینے کے تیسوں دن کام کرنے کو ملتا تھا وہیں اب بمشکل دس سے پندرہ دن ہی کام مل پاتا ہے جس کے سبب خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے، آمدنی کم ہونے سے گھر کا خرچ، بچوں کو پڑھانا اب بہت مشکل ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے سبب تالوں کے کارخانوں اور کام میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مزدور طبقہ اب بےروزگار ہو رہا ہے۔
ایک تالا کارخانہ کے مالک نے بتایا علیگڑھ شہر میں تالوں کے کاروبار میں اب وہ بات نہیں رہی جو پہلے تھی، مہنگائی کے سبب سبھی چیزیں مہنگی ہوئی ہیں، دھاتوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے تالوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اتنا کام نہیں مل پاتا جتنا پہلے ملتا تھا، اسی لئے مزدور طبقہ اب کارخانوں کو چھوڑ کر رکشا چلانے پر مجبور ہورہا ہے ۔ مہنگائی کے سبب تالوں اور ہارڈویئر کا کاروبار پوری طرح متاثر ہوا ہے۔
سماجی کارکن و کاروباری محمد گلزار کا کہنا ہے کہ 'مہنگائی کے سبب تالوں کا کام متاثر ہوا ہے اور اب مہینے میں 15 سے 20 دن ہی کام مل رہا ہے جس کی وجہ سے گھریلوں اخراجات مکمل نہیں ہوپارہے ہیں اور کاریگروں کی پریشانیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت تالوں پر لگنے والی 18 فیصد جی ایس ٹی اور مہنگائی کو کم کرے تاکہ نہ صرف تالوں کے کاروبار بلکہ دیگر کاروبار میں بھی اضافہ ہو اور مزدوروں و کاریگروں کو پہلے کی طرح روزگار مل سکے'۔
سماجی کارکن گلزار کا کہنا ہے کہ 'اب مہنگائی کے سبب تالوں کی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے کارخانوں میں کاریگروں کی تعداد میں بھی کم ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مہنگائی نے کاریگروں کی کمر توڑ دی ہے، کاروبار پوری طرح سے متاثر ہوا ہے، کاریگر دن بھر میں اتنا بھی کام نہیں کر پاتے جس سے وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکیں۔ اس لیے حکومت مہنگائی اور ٹیکس کی در کو کم کرے تاکہ کاریگروں کی پریشانیوں کا ازالہ ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ : تالے کا وزن جان کر آپ حیرت میں پڑ جائیں گے