ETV Bharat / state

لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی، کھنڈرات میں تبدیل - اترپردیش نیوز

نوابی دور کی قدیم عمارتیں پورے شان و شوکت کے ساتھ سیاح کو متاثر کرتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک گومتی ندی کے کنارے ریزیڈنسی جنگ آزادی کا گواہ ہے، جو اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن اپنی خوبصورتی کو بیان کر رہی ہے۔

historical residency of lucknow, turned into ruins
لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی
author img

By

Published : Sep 12, 2020, 9:02 PM IST

لکھنؤ میں آج بھی نوابی دور کی قدیم عمارتیں اپنے دامن میں تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک لکھنؤ کا ریزیڈنسی ہے، جو گومتی ندی کے کنارے بنایا گیا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

ریزیڈنسی کی تعمیر انگریزی افسران کے رہائش گاہ کے لیے 1775 میں نواب آصف الدولہ نے کرایا تھا، جسے نواب سعادت علی خاں نے 1800 میں پائے تکمیل تک پہنچایا۔

آج ریزیڈینسی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن دو صدی پہلے یہ انگریزوں کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔ 1857 کے انقلاب میں آزادی کے دیوانوں نے احمد اللہ شاہ کی قیادت میں 87 دنوں تک اس کا محاصرہ کر رکھا تھا، جس میں سات سو سے زائد انگریز اور مجاہد آزادی نے اپنی جانوں کو قربان کر دیا تھا۔

بیلی گیٹ، یہ ریزیڈنسی کا داخلہ دروازہ ہے۔ اس کی تعمیر نواب سعادت علی خاں نے انیسویں صدی میں لکھنؤ کے ریزیڈنٹ 'کیپٹن بیلی' کے اعزاز میں کرایا تھا۔ اسے 'گارڈ گیٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ سپاہی اس کے اوپر کھڑے ہو کر دور تک نظر رکھ سکتے تھے۔

ٹریزری ہاؤس، اس کی تعمیر 1851 میں 16 ہزار 897 روپے کی لاگت سے ہوئی تھی۔ 1857 کے انقلاب میں اس کا استعمال انفیلڈ کارتوس بنانے کے کارخانے کے طور پر ہوا تھا۔

historical residency of lucknow
لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی

رہائش گاہ، اس بلڈنگ میں انگریزی افسران کی رہائش تھی۔ اس لیے اس کا نام ریزیڈنسی پڑا۔ یہ تین منزلہ تھی لیکن موجودہ وقت میں اس میں چھت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیگم حضرت محل کی فوج نے اس کا 87 دنوں تک محاصرہ کر کے بندوق کی گولیوں اور توپوں کے گولوں سے کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ریزیڈنسی کی چھت کو مضبوطی دینے کے لیے اتاولی لوہے کی چھڑ کا استعمال کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی عمارت کے جنوبی حصے میں تہہ خانہ ہے، جہاں انگریز گرمی سے بچنے کے لیے رہا کرتے تھے۔ 1857 میں جب اودھ کی نواب بیگم حضرت محل نے اس پر حملہ کیا، تب انگریزی افسران نے بچوں اور خواتین کو اسی تہہ خانے میں چھپا دیا تھا۔

ریزیڈنسی میں نماز پڑھنے کے لیے ایک چھوٹی مسجد آج بھی موجود ہے۔ یہاں پر موجود وقت میں بھی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک گرجا گھر بھی تھا، لیکن وہ اب موجود نہیں ہے۔

ریزیڈنسی کے احاطے میں انگریزوں کی قبرستان بھی موجود ہے، جہاں پر 2000 سے زائد مرد، خواتین اور بچوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں، لیکن زیادہ تر زمیں دوز ہو چکی ہیں۔ کچھ کے نشانات ابھی باقی ہیں۔

historical residency of lucknow
لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی

ریذیڈنسی ایک طرح سے سفارت خانہ بن گیا تھا، جہاں پر نوابوں کی حکومت نہیں چلتی تھی۔ یہاں تک کہ جو بھارتی شہری ریزیڈنسی میں بطور ملازمین تھے، ان پر بھی اودھ کے نوابین کا حکم جاری نہیں ہو سکتا تھا۔

اس عمارت میں ایک اونچی مینار بھی ہے، جس میں بندوق کی گولیوں اور توپ کے گولے کے نشانات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی مینار پر آج بھارتی پرچم شان سے لہرا رہا ہے لیکن ایک وقت وہ بھی تھا، جب انگریزی جھنڈا (یونین جیک) لہرایا کرتا تھا۔

نوابی فوجی اس پرچم کو گولی مار کر گرا دیتے تھے، لیکن انگریز رات میں دوبارہ لگا دیا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں:

اتر پردیش: سماج وادی پارٹی کے ضلعی صدر سمیت دو گرفتار

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ جاری رہا۔ 1947 میں جب بھارت کو آزادی ملی، اس کے ایک سال قبل ہی اس جھنڈے کو انگریز خاموشی کے ساتھ اتار کر اپنے ساتھ لے گیے۔

لکھنؤ میں آج بھی نوابی دور کی قدیم عمارتیں اپنے دامن میں تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک لکھنؤ کا ریزیڈنسی ہے، جو گومتی ندی کے کنارے بنایا گیا تھا۔

دیکھیں ویڈیو

ریزیڈنسی کی تعمیر انگریزی افسران کے رہائش گاہ کے لیے 1775 میں نواب آصف الدولہ نے کرایا تھا، جسے نواب سعادت علی خاں نے 1800 میں پائے تکمیل تک پہنچایا۔

آج ریزیڈینسی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن دو صدی پہلے یہ انگریزوں کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔ 1857 کے انقلاب میں آزادی کے دیوانوں نے احمد اللہ شاہ کی قیادت میں 87 دنوں تک اس کا محاصرہ کر رکھا تھا، جس میں سات سو سے زائد انگریز اور مجاہد آزادی نے اپنی جانوں کو قربان کر دیا تھا۔

بیلی گیٹ، یہ ریزیڈنسی کا داخلہ دروازہ ہے۔ اس کی تعمیر نواب سعادت علی خاں نے انیسویں صدی میں لکھنؤ کے ریزیڈنٹ 'کیپٹن بیلی' کے اعزاز میں کرایا تھا۔ اسے 'گارڈ گیٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ سپاہی اس کے اوپر کھڑے ہو کر دور تک نظر رکھ سکتے تھے۔

ٹریزری ہاؤس، اس کی تعمیر 1851 میں 16 ہزار 897 روپے کی لاگت سے ہوئی تھی۔ 1857 کے انقلاب میں اس کا استعمال انفیلڈ کارتوس بنانے کے کارخانے کے طور پر ہوا تھا۔

historical residency of lucknow
لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی

رہائش گاہ، اس بلڈنگ میں انگریزی افسران کی رہائش تھی۔ اس لیے اس کا نام ریزیڈنسی پڑا۔ یہ تین منزلہ تھی لیکن موجودہ وقت میں اس میں چھت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیگم حضرت محل کی فوج نے اس کا 87 دنوں تک محاصرہ کر کے بندوق کی گولیوں اور توپوں کے گولوں سے کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ریزیڈنسی کی چھت کو مضبوطی دینے کے لیے اتاولی لوہے کی چھڑ کا استعمال کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی عمارت کے جنوبی حصے میں تہہ خانہ ہے، جہاں انگریز گرمی سے بچنے کے لیے رہا کرتے تھے۔ 1857 میں جب اودھ کی نواب بیگم حضرت محل نے اس پر حملہ کیا، تب انگریزی افسران نے بچوں اور خواتین کو اسی تہہ خانے میں چھپا دیا تھا۔

ریزیڈنسی میں نماز پڑھنے کے لیے ایک چھوٹی مسجد آج بھی موجود ہے۔ یہاں پر موجود وقت میں بھی نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک گرجا گھر بھی تھا، لیکن وہ اب موجود نہیں ہے۔

ریزیڈنسی کے احاطے میں انگریزوں کی قبرستان بھی موجود ہے، جہاں پر 2000 سے زائد مرد، خواتین اور بچوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں، لیکن زیادہ تر زمیں دوز ہو چکی ہیں۔ کچھ کے نشانات ابھی باقی ہیں۔

historical residency of lucknow
لکھنؤ کی تاریخی ریزیڈنسی

ریذیڈنسی ایک طرح سے سفارت خانہ بن گیا تھا، جہاں پر نوابوں کی حکومت نہیں چلتی تھی۔ یہاں تک کہ جو بھارتی شہری ریزیڈنسی میں بطور ملازمین تھے، ان پر بھی اودھ کے نوابین کا حکم جاری نہیں ہو سکتا تھا۔

اس عمارت میں ایک اونچی مینار بھی ہے، جس میں بندوق کی گولیوں اور توپ کے گولے کے نشانات ابھی بھی باقی ہیں۔ اسی مینار پر آج بھارتی پرچم شان سے لہرا رہا ہے لیکن ایک وقت وہ بھی تھا، جب انگریزی جھنڈا (یونین جیک) لہرایا کرتا تھا۔

نوابی فوجی اس پرچم کو گولی مار کر گرا دیتے تھے، لیکن انگریز رات میں دوبارہ لگا دیا کرتے تھے۔

مزید پڑھیں:

اتر پردیش: سماج وادی پارٹی کے ضلعی صدر سمیت دو گرفتار

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ جاری رہا۔ 1947 میں جب بھارت کو آزادی ملی، اس کے ایک سال قبل ہی اس جھنڈے کو انگریز خاموشی کے ساتھ اتار کر اپنے ساتھ لے گیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.