علیگڑھ: بھارتی حکومت کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی کے تحت بیچلرز آف آرٹس (بی اے) کے نصاب سے مغل بادشاہوں کی تاریخ ہٹائے جانے پر بھارتی مورخ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) شعبہ تاریخ کے پروفیسر علی ندیم رضوی نے کہا "2014 سے موجودہ حکومت کی Good Muslim اور Bad Muslim کی سیاست جاری ہے تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق ووٹوں کو تقسیم کرکے بھارت پر اپنا تسلط قائم رکھ سکے"۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر علی ندیم رضوی نے کہا کہ 'نئی تعلیمی پالیسی کے تحت موجودہ حکومت کی جانب سے ہائی سکول اور بیچلر آف آرٹس (بی اے) کے نصاف میں کی جا رہی تبدیلی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت ایک دانشتہ پالیسی کے تحت ایک خاص نظریہ کو دیکھانے کی کوشش کررہی ہے۔
پروفیسر رضوی نے بتایا کہ 'تبدیل کیے گئے نصاب میں انگریزوں کی بربریت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا رہا ہے۔
تاریخ میں اگر آپ میڈیول پیریئڈ کا نصاب دیکھیں گے تو اس میں جہاں جہاں بھی مذہبی بھائی چارہ اور محبت کی بات کی گئی ہے اس کو نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے، مثلا اکبر بادشاہ، جہانگیر، شاہ جہاں کو مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے، تاج محل کا ذکر ہے کیونکہ تاج محل کو نصاب سے نہیں ہٹا سکتے، اس سے دنیا بھر میں بھارت کی پہچان ہے اور خاصی آمدنی بھی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں:
دارا شکوہ کو نصاب میں پڑھایا بھی جا رہا ہے، ان کے نام سے مراکز بھی کھولے جا رہے ہیں اور مختلف مقامات پر سیمینار کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ "2014 سے جو موجودہ حکومت کی کوشش چلی آرہی ہے وہ ہے Good Muslim اور Bad Muslim کی۔
پروفیسر رضوی نے کہا کہ 'موجودہ حکومت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت نصاب میں جو تبدیلی کر رہی ہے اس پر بھارت کے مورخ چاہیں وہ عرفان حبیب ہو، روبیلا تھاپر ہو یا بے شمار اسکالرز ہوں سبھی مخالفت کررہے ہیں۔