تقریباً 30 برسوں قبل ڈاکٹر آرتی لال چندانی نے جب اپنی میڈیکل کی تعلیم پوری کی تھی، اس وقت یہ قسم کھائی تھی کی وہ انسانیت کی خدمت بلا تفریق مذہب و ملت کریں گی لیکن اب یہی ڈاکٹر آرتی لال چندانی اس قسم کی مذہبی نفرت کا شکار ہو گئی ہیں۔
ڈاکٹر آرتی فی الحال گنیشن شنکر ودیارتھی میڈیکل کالج کی پرنسپل ہیں جبکہ وہ آئی ایم اے کانپور کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔
ڈاکٹر آرتی اپنے وائرل ویڈیو میں کہتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کوئی علاج نہیں ملنا چاہیے انہیں جنگل میں پھینک دیا جانا چاہیے، ان پر حکومت اپنا پیسہ برباد کر رہی ہے۔
حد تو یہ ہوگئی کہ وہ اب ضلع مجسٹریٹ کو بھی کہہ رہی ہیں کہ وہ تبلیغی جماعت کے لوگوں پر کوئی مہربانی نہ کریں، انہیں کھانا بھی نہ دیں، انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ عالمی ہیومن رائٹس بھی کوئی ادارہ ہے جو دشمنوں کو بھی کچھ حق دیتا ہے۔
ڈاکٹر آرتی کے اس طرح کے بے بنیاد بیانات کی وجہ سے ان پر کئی مقدمات درج ہوچکے ہیں لیکن اس سماعت سے پہلے ڈاکٹر آرتی لال چندانی خود ہی جج بن کر ان کو ملزم سے مجرم بنا رہی ہیں۔
میڈیکل کالج کے ہسپتال میں بنے کوویڈ 19 سینٹر میں تبلیغی جماعت کے لوگ کورونا وائرس کے مثبت مریض مانتے ہوئے ان کا علاج کیا جا رہا تھا اسی دوران تبلیغی جماعت کے افراد پر کھانا پھینکنے، کھانے کے برتن کو لات مارنے اور وارڈ بوائے کے ساتھ بدتمیزی جیسے نفرت بھرے بیان بھی ڈاکٹر آرتی لال چندانی نے دیے تھے ۔
اس کووڈ 19 سینٹر میں جگہ جگہ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور انہی کیمروں کے ذریعہ مریضوں کی نگرانی کی جا رہی تھی، تمام مریضوں کو کنٹرول روم سے آڈیو کے ذریعے حکم بھی دیا جاتا تھا لیکن ڈاکٹر آرتی لال چندانی نے شاید کسی کو خوش کرنے کے لیے یا پھر اپنے سیاسی فائدے کے لیے ایسے نفرت بھرے بیان دیئے ہیں لیکن تبلیغی جماعت کے خلاف وہ ایک بھی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش نہیں کر سکیں۔
اس معاملے میں قاضی شہر (کانپور) مولانا حافظ عبدالقدوس ہادی نے ضلع مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور انہیں وائرل ویڈیو کے بارے میں تمام چیزوں سے روشناس کرایا ہے جس پر انہوں نے مجسٹریٹ سے جانچ کرانے کا یقین دلایا ہے۔