ملک کے تمام لوگوں کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو آزادیِ ہند کے مسلم قائدین کی تاریخ، ان کے جذبہ محبت وطن، محبت قوم و ملت، اُن کی سرفروشی و جاں نثاری کی تاریخ سے آگہی بخشنے اور ملک میں اتحاد و یکجہتی اور بھائی چارگی کی فضا بنانے والے مجاہد آزادی کی زندگی سے روبرو کرانا ضروری ہے۔
مولانا شہاب الدین نے مزید کہا ہے کہ نوجوانانِ ہند کو تاریخ آزادی ہند کے علمبردار مسلم قائدین کی زریں تاریخ سے آگاہ کرانا نہایت ضروری ہے، ورنہ ملک میں فرقہ پرست طاقتیں مسلم تواریخ کے اصل واقعات کو مٹانے کی کوششیں کررہی ہیں۔
مولانا شہاب الدین نے مزید کہا کہ ان تمام ناپاک کوششوں کے باوجود جب جب مسلم قائدین اور مجاہدینِ آزادی کی تاریخ کو تحریر کیا جائے گا، تو یہ تاریخ تب تک مکمل نہیں ہوگی، جب تک اُس میں حسرت موہانی کا نام شامل نہیں ہوگا۔
مولانا شہاب الدین نے کہا کہ مولانا حسرت موہانی ایک سچے مسلمان اور سچے محب وطن تھے۔ وہ اپنے مذہب و مسلک کے بھی وفادار تھے اور ملک کے بھی وفادار تھے۔ تحریک آزادی کے متوالوں اور پروانوں میں آزادی کی جدوجہد کا جوش و جذبہ پیدا کرنے کو اُنہوں نے انقلاب زندہ آباد کا ایسا نعرہ دیا جو اتنا مقبول ہوا کہ آج یہ نعرہ ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اور ہر آواز کی روح و غذا بن گیا ہے۔
مولانا شہاب الدین نے یہ بھی بتایا کہ مولانا حسرت موہانی ایک صوفی سنی اور خانقاہی بزرگ تھے۔ وہ سلسلہ قادریہ رزاقیہ میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے والد مولانا عبد الوہاب فرنگی محلی سے مرید تھے۔
اُنہیں مولانا عبد الباری فرنگی محلی سے اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔ مولانا موہانی نے اپنی متصوفانہ زندگی، اپنے حلقہ ارادت، اپنی سیاسی بصیرت، بے باک صحافت، مردوں میں روح پھونک دینے والی اپنی انقلابی شاعری سے ملک کو آزادی دلانے میں ایک اہم اور ناقابل فراموش کارنامہ انجام دیا تھا۔
مزید پڑھیں:
اکھلیش یادو نے اعظم خان کی خیریت دریافت کی
ایسے مجاہدین و قائدین جنگ آزادی کی وجہ سے آج ہم اس ملک میں آزاد شہری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ سب ہمارے محسن ہیں۔ 13 مئی 1951 میں مولانا حسرت موہانی سدا کے لئے بھارتیوں کو آزادی کی روشنی دے کر ہم سے رخصت ہو گئے تھے۔