حقؔ بنارسی سنہ 1919 میں پیدا ہوئے اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ان کا پورا نام عبد الحق اور والد کا نام امیر علی تھا۔مستقل سکونت کانپور میں اختیار کرنے کے باوجود ہمیشہ خود کو بنارسی ہی لکھا کرتے تھے حقؔ بنارسی کے نام سے مشہور ہوئے۔
حق بنارسی کی شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سہ ماہی"ارتقا" کے مدیر شاد عباسی نے بتایا کہ حق بنارسی کا شمار ان غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جن کا تعلق کسی ادبی گروہ سے ہے نہ وہ کسی نظریہ یا رجحان سے وابستگی رکھتے تھے۔
حق صاحب نے اظہار خیال کے لیے صنف غزل کو منتخب کیا۔ اس صنف میں طبع آزمائی کرنا بظاہر جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہی دشوار ہے اور صرف غزل گو شعرا ہی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ صحیح معنوں میں ایک مصرع بھی موزوں کرنے کے لیے کتنا خون جگر پینا پڑتا ہے۔
حق کی غزل داخلیت کی نمائندگی کے باوجود اپنے کوغم جاناں کے حصار میں مقید نہیں رکھتی بلکہ غم دوراں اور غم حالات کے اظہار کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتی ہے لیکن شعری خصائص کا دامن چھوڑے بغیر ان کی غزلوں میں غم ہائے روزگار کی عکاسی کا انداز دوسرے شعرا سے خاصا مختلف ہے۔
ان کی غزل گوئی ان حسی تجربوں کی آئینہ دار ہے جو شعر کی ذات نیز اس کے متنوع کوائف و علائق سے عبارت ہے۔
حق بنارسی کی شاعری میں وطن عزیز کا ذکر بار بار آتا ہے جس میں ایک قسم کی تلخی کی شدت بھی ہے جو پیرہن بدلتی ہے۔
وہ ایک عام انسان کی طرح وطن کو یاد کرتے ہیں۔ حق کی شاعری میں بے مہری احباب کی حکایت و شکایت بھی ہے جو اردو غزل کا ایک خاص موضوع رہا ہے۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے ہے کہ وہ ایک مضمون کو مختلف پیرائے میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔
ان کی غزلوں کا مجموعہ ”فریاد نغمہ“کے نام سے 1981 میں منظر عام پر آچکا ہے جو اب نایاب ہے۔
شاد عباسی نے کہا کہ حق بنارسی ایسے شاعر ہیں جن کو فراموش کردیا گیا ضرورت ہے کہ ان کے کلام کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ عوام ان سے مستفید ہوسکیں۔
ان کے چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔
کتنا قیمتی لمحہ تھا تمہاری قربت کا
مختصر سہی لیکن عمر بھر پہ بھاری ہے
دنیا سے جدا ہے مرا انداز تباہی
بربادستم سب ہیں میں برباد کرم ہوں
شرم سی آتی ہے اظہار تمنا کرتے
وہ بھی کیا سوچیں گے کس کس کو نوازا جائے