ہینڈ لوم چلانے والے پہلے ہی کامیاب تھے، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد ہینڈ لوم پر مصیبت کھڑی ہے۔ بنارس کے للا پورہ علاقے کے رہنے والے محمد سلیم انصاری بتاتے ہیں کہ، 'بنارس و اطراف میں ہینڈلوم کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ، 'بھارتی حکومت ہینڈی کرافٹ کے فروغ پر زور دے رہی ہے، لیکن اس کا فائدہ مزدور یا نجی طور پر کام کرنے والوں کو نہیں ملتا ہے بلکہ جو لوگ این جی او یا تنظیم سے وابستہ ہیں وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔'
سلیم نے بتایا کہ، 'ہینڈلوم پر کام کرنے کے لئے فنکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچپن سے ہی اس کام کو سیکھنا پڑتا ہے جس کہ وجہ سے بیشتر بنکر نا خواندہ ہوجاتے ہیں، لیکن اب نئی نسل اس کام سے بیزار ہے۔ ہنڈ لوم پر نقلی مال نہیں بنتا ہے۔
ہینڈلوم پر بننے والی ساڑی قیمتی ہوتی ہے، جس میں فن کے کام پیوست ہوتے ہیں۔ ہینڈلوم کے کام کا مطالبہ رہتا ہے۔ لوگ خوب پسند بھی کرتے ہیں، لیکن مزدوری کم ملتی ہے اور کافی باریک اور نفیس کا ہوتا ہے۔
جس کی وجہ سے نوجوان اس کام سے بیزار ہورہے ہیں۔ سلیم انصاری اپنی اہلیہ کے ساتھ ہینڈ لوم چلاتے ہیں، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سلیم بتاتے ہیں کہ، 'کھانے کے لیے سامان رسد نہیں ہے اب وہ سرکاری اناج پر گزارہ کرتے ہیں۔'
فی الحال وہ ایک ساڑی بنا رہے ہیں جو 20 دن میں تیار ہوگی اور پانچ ہزار مزدوری ملے گی، جس میں سنسکرت زبان میں مشکل اسلوک لکھ رہے۔