رنگین دھاگوں سے بے جان کپڑوں کو خوبصورت شکل و صورت دینے والے بریلی کے زری کاریگروں کے ہنر کی دنیا قائل ہے۔ بریلی میں زری زردوزی کاروبار سے تقریباً 8.5 لاکھ کاریگر وابستہ ہیں۔ جن میں تقریباً 2.5 لاکھ پردہ نشین خواتین بھی شامل ہیں۔ جبکہ تقریباً 7 ہزار ٹھیکےدار ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ان تمام کاریگروں میں 95 فیصد سے بھی زائد کاریگر مسلمان ہیں۔ لاک ڈاؤن میں یہ ہنرمند کاریگر خالی ہاتھ گھر بیٹھے ہیں۔ جن کاریگروں کے پاس لاک ڈاؤن سے پہلے کا خام مال یا کپڑا اسٹاک میں رکھا تھا، وہ خالی ہاتھوں کو مصروف رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مزدوری کے نام پر ایک روپیہ بھی نہیں مل پارہا ہے۔ کبھی اپنی اُنگلیوں سے دھاگے اور ستاروں کو کپڑے پر جڑکر چمک بکھیرنے والے کاریگروں کی روشن زندگی اب تاریکیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔
لاک ڈاؤن میں زری زردوزی صنعت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ زری زردوزی کے کارخانوں پر تالہ لٹک گیا ہے۔ جن کارخانوں میں ایک درجن سے زائد کاریگر کام کرتے تھے، وہاں کارخانہ مالک خود مزدور کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ نہ کام ہے، نہ کاریگر ہیں اور نہ ہی کوئی کمائی ہے۔
ایسے حالات اس شہر میں ہیں، جہاں زری زردوزی روایتی اور آبائی صنعت کے طور پر عالمی سطح پر جانی اور پہچانی جاتی ہے۔
زری کاریگروں کو حکومت کی کسی پالیسی کے تحت کوئی محنتانہ مقرر نہیں ہے۔ ایسے حالات میں تمام کاریگر صرف اسی محنتانے پر دست کاری کرتے ہیں، جو ٹھیکے داروں نے طے کردیا ہے۔
سوٹ کڑھائی کے دو سو سے تین سو روپیہ اور ساڑی کڑھائی، ڈیزائن بنانے کے چار سو سے پانچ سو روپیہ ملتے ہیں۔ لیکن اس محنتانے کو حاصل کرنے کے لیے 14 سے 16 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔
یہی صورت حال پردہ نشین خواتین کی بھی ہے۔ گھر میں اگر چار پردہ نشین خواتین ہیں، تو کم از کم تین خواتین زری کی دستکاری کرتی ہیں اور ایک خاتون گھر کے کام کی تمام ذمہ داری انجام دیتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
لاک ڈاؤن کے سبب نئے کاروباری معاشی بحران سے دوچار
بریلی میں زری زردوزی کا کام صوفی ٹولہ، کانکر ٹولہ، روہلی ٹولہ، جوگی نوادہ، سیلانی، بزریہ عنایت گنج، گھیر جعفر خاں، حجیا پور، قلعہ اور باقر گنج علاقے میں اعلیٰ پیمانے پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی ہزاروں کنبے اس صنعت سے منسلک ہیں۔ بریلی میں زری سے تیار تمام کپڑے دہلی، جےپور، ممبئی و دیگر میٹرو سٹی سے ہوتے ہوئے بیرونِ ممالک تک پہنچتے ہیں۔ لیکن ان دنوں تمام کارخانوں میں عجب سی خاموشی ہے، عجب سی مایوسی ہے، عجب سی ناامیدی ہے۔ اب زندگی گھر میں رکھی جمع رقم سے بسر ہو رہی ہے یا پھر کسی قرضدار کے احسانوں میں دبی جا رہی ہے۔