اس بار انہوں نے تقریباً تیس بکرے تیار کیے ہیں، جو مختلف نسل کے ہیں۔ انہیں کی اس بار وہ قربانی کریں گے۔ آپ کو یہ سن کر بھی حیرانی ہوگی کہ ان کے ایک بکرے پر تقریباً تین سو روپیہ فی بکرا خوراک پر خرچ ہوتا ہے۔
کانپور کے بیگم گنج علاقہ کے رہنے والے محمد آصف عرف چاند خان بکروں کے پالنے کے شوق کے لیے جانے جاتے ہیں، لوگ ان کے بکروں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں کیونکہ ان کے بکروں کا قد عام بکروں کے قد سے جدا ہوتا ہے اور ان کی جیسی صحت بھی عموماً بکروں میں نہیں پائی جاتی ہے۔
کیونکہ ان کے بکروں کا وزن 150 کلو سے لے کر 170 یا اس سے بھی زائد تک ہوتا ہے۔ ان کے پاس جو بکرے ہیں وہ جمنا پاری نسل، اجمیر، اترپردیس، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کے اعلی نسلوں کے بکرے ہیں۔
انہیں بکروں کا شوق ہے اس لیے بکروں کی نسل کی انہیں اچھی پہچان بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب یہ بکروں کی خریداری کرتے ہیں تو سینکڑوں بکروں میں ہی کچھ ایک بکروں کو پسند کر پاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ چند بکروں کو جو اپنی قد کے اعتبار سے اور اپنی صحت کے اعتبار سے ہر طرح سے انہیں بہتر لگتے ہیں ان بکروں کو خرید کر کر وہ اپنے یہاں لا کر ان کی پرورش کرتے ہیں۔
یہ سال بھر کے آس پاس کے بکروں کو خریدتے ہیں، ان کی پرورش میں وہ بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے بکریوں کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے خاص طور سے کئی لوگوں کو اجرت پر متعین کر رکھا ہے، جو ان بکروں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔
ایک خاص ٹرینر ہے جس کو یہ استاد کہتے ہیں جس کی معاونت میں کئی خادم ہیں جو بکروں کی خدمت کرنے کے لئے متعین ہیں۔
استاد ان بکروں کی غذا متعین کرتا ہے اور انہیں وقت اور دن کے اعتبار اور موسم کے لحاظ سے غذائیں دیا کرتا ہے، ان بکروں کو جہاں تمام قیمتی اشیاء کھلائی جاتی ہے وہیں گھی اور تیل بھی پلایا جاتا ہے۔
گھی اور تیل سے عام طور سے بکروں کے ہاضمہ خراب ہو جاتے ہیں لیکن انہیں اس بات کی مہارت حاصل ہے کہ وہ ان بکروں کو ہر طرح سے صحت مند اور تندرست رکھتے ہیں۔
ان کے پالے ہوئے بکرے صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ چست اور پھرتیلے بھی ہیں۔ ڈیڑھ سو کلو کا وزن ہو جانے کے بعد بھی ان کو چلنے پھرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔ یہ آسانی سے چلتے پھرتے بھی ہیں، اتنا ہی نہیں طبی لحاظ سے بھی وہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔
جہاں یہ بکرے اپنی صحت اور اونچائی کے اعتبار سے خوبصورت اور اچھے دکھائی دیتے ہیں تو وہیں ان کی خوبصورتی کو اور چار چاند لگانے کے لیے ایک خصوصی خادم رکھا گیا ہے، جو ان کی سینگوں کو تراشتا ہے۔ اس میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے، ان کی صفائی کرتا ہے، ان بکروں کو نہلاتا ہے، ان کے خوروں کو کیمیکل سے صاف کرتا ہے اور بڑھے ہوئے خوروں کو کاٹتا تراستا ہے۔ ان کی مالش کرتا ہے ان کو نہلاتا ہے اور ساتھ ہی ان کے بالوں کو کنگھی بھی کرتا ہے۔
بکرے پالنے کا شوق محمد آصف عرف چاند خان کے خون میں رچا بسا ہوا ہے، یہ شوق انہیں ان کے دادا مرحوم حاجی عبدالصمد سے ملا ہے جو بکرے پالنے کے بے حد شوقین تھے۔
وہ بھی اپنے وقت میں بکروں کو خرید کر انہیں پالا کرتے تھے اور جب وہ خوب صحت مند اور ان کا وزن بھی زیادہ ہو جاتا تھا تب اس کی قربانی کیا کرتے تھے۔
یہ شوق محمد آصف اور چاند کو اپنے والد اور اپنے دادا سے ملا ہے، جسے وہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ شوق ان کے خاندان میں ان کے دیگر بھائیوں میں بھی پیدا ہو گیا ہے اور سب لوگ مل کر الگ۔ الگ نسل کے بکروں کو مشترکہ طور پر پالتے ہیں۔ ان کے بکروں کا قد ایسا لگتا ہے جیسے نیل گائے ہو یا گھوڑے کے بچوں کے قد کے برابر لگتے ہیں۔
یہ بکرے اگر کھڑے کھڑے اپنے سر کو اونچا کریں تو ان کا منھ انسان کے سر کے اوپر نکل جاتا ہے۔
کانپور میں تقریبا 80 سالوں سے حاجی عبدالصمد مرحوم کا خاندان ان بکروں کو پالنے کے لیے مشہور ہے، یہ سال سوا سال کی عمر کے کئی کئی درجن بکروں کو خرید کر ایک ساتھ پالتے ہیں اور جب وہ ان کی پسند کے مطابق صحت مند اور وزن دار ہو جاتے ہیں تو وہ ان کی قربانی کرتے ہیں اس سال بھی وہ وہ سال سوا سال کے بکروں کو خریدیں گے اور پھر انہیں سال بھر تک رکھیں گے جب ان کا وزن ان کی پسند کے مطابق بہتر ہو جائے گا تو اس کی قربانی کرادیں گے۔ اس کے گوشت کو وہ تمام غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیتے ہیں۔