ریاست اتر پردیش کے مراداباد تھانہ مونڈا پانڈے علاقے کے رہنے والے ذاکر ولد کلن نے 24 مئی کو تھانہ کٹ گھر پولیس کو ایک تحریر دیتے ہوئے شکایت کی تھی کہ ان کے بھائی شاکر ایک گوشت کاروباری ہے اور وہ اپنی اسکوٹی سے کٹے رے کا گوشت لے کر جا رہا تھا لیکن کچھ لوگوں نے اس کو پکڑ کر لاٹھی ڈنڈوں سے جم کر پیٹا۔
وہیں اس معاملے سے متعلق وائرل ہورہے مارپیٹ کے ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ گؤ رکشک کے منوج ٹھاکر اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر شاکر کو لاٹھی اور ڈنڈوں سے جم کر پیٹا ہے۔
اس پورے معاملے کے بعد مرادآباد کے رکن پارلیمان ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور مرادآباد ایس ایس پی سے اس معاملے کی شکایت کر ملزمین پر سخت کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔
رکن پارلیمان ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے ای ٹی وی بھارت اردو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مرادآباد میں ہجومی تشدد ہوتے ہوتے بچا ہے۔ شہر میں کچھ لوگ گوشت کاروباریوں پر گائے کا گوشت لانے کے الزام میں ان کو مار پیٹ رہے ہیں۔ جب ہمارے ملک میں گائے کا گوشت کھانا قانونی جرم ہے تو لوگ گائے کا گوشت نہ کھائیں۔ اسلام مذہب سکھاتا ہے کہ جس چیز پر ملک کا قانون پابندی لگا دے اس کا استعمال ملک کے قانون کے ماننے والوں کو نہیں کرنا چاہیے۔
وہیں آج اس معاملے میں پولیس نے دو ملزمین کو گرفتار کر جیل بھیج دیا ہے اور باقی دو ملزم ابھی فرار ہیں۔ معاملے کی جانچ میں انکشاف ہوا ہے کہ گوشت کاروباری کے پاس کٹے رے کا گوشت تھا گائے کا گوشت نہیں تھا۔