اسی سلسلے میں فقہاء کرام کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق نماز عیدالفطر کے لئے وہی شرائط ہیں جو نماز جمعہ کے لیے ہیں ۔
نماز جمعہ اور عیدالفطر میں فرق یہ ہے کہ جمعہ میں خطبہ پہلے ہوتا ہے اور عید الفطر میں نماز کے بعد۔ خطبے میں عیدالفطر کےفضائل اور مسائل بھی بتانا ضروری ہوتا ہے۔
نماز عید الفطر میں چھ تکبیریں زائد ہیں جب کہ جمعہ میں ایسا نہیں ہے، نمازجمعہ جامع مسجد میں پڑھا جانا چاہیے اور نماز عید الفطر آبادی سے باہر میدان میں یعنی عید گاہ میں ہوتی ہے۔
اگر کسی بھی مجبوری سے نماز جمعہ فوت ہوجائے تو آپ ظہر کی نماز ،جمعہ کی جگہ پر اپنے گھر میں اکیلے یا جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں لیکن اگر نماز عید الفطر امام کے ساتھ عیدگاہ میں نہیں پڑھ سکے تو اس کے بدلے میں کوئی حکم نہیں ہے،
نماز جمعہ کے لیے قرآنی حکم ہے لیکن نماز عیدالفطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موا ظبت کی وجہ سے سنت موکدہ اور واجبات میں سے ہے۔
( امام ابو حنیفہ ) کے نزدیک نماز عید الفطر واجب ہے اور صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت کی وجہ سے مشائخ کے نزدیک سنت ہے (رسائل الارکان ملا بحرالعلوم فرنگی محلی )۔
نماز عید کے وجوب کے لئےاور ادائیگی کے لیے وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں ۔سوائے خطبے کے وہ جمعہ سے پہلے ہیں اور نماز عید الفطر میں نماز کے بعد خطبہ ہوتا ہے (رسائل الارکان ملا بحرالعلوم فرنگی محلی)۔
نماز عید الفطر واجب ہے جس پر نماز جمعہ واجب ہے (ہدایہ کفایہ).
نماز عید الفطر کے لیے جماعت شرط ہے ( امام ابوحنیفہ) کے نزدیک اور ایک روایت میں( امام احمد بن حنبل) کے نزدیک بھی ہے۔
(شرح وقایہ) میں ہے کہ اگر کسی نے امام کے ساتھ عید گاہ میں نماز عید الفطر نہیں پڑھی تو اس کی قضا نہیں پڑھے گا۔ اس لئے کہ نماز عید الفطر میں جماعت اور حضوری سلطان کی بھی شرط ہے اور جب شرط پوری نہیں ہوگی تو قضاء بھی نہیں ہوگی۔
(رسائل الارکان) میں ملا بحرالعلوم فرنگی محلی نے لکھا ہے کہ نماز عید الفطر کی قضا نہیں ہے۔
(در مختار) میں ہے کہ اور نماز عید الفطر تنہا نہ پڑھے اگر امام کے ساتھ عیدگاہ میں نماز عید الفطر فوت ہوجائے۔
(عالمگیری) میں ہے جس کی نماز عیدین امام کے ساتھ فوت ہو گئی ہو تو وہ قضا بھی نہیں کرے گا۔ نماز کا وقت پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو (کذافی التبیین و شرح سفر السعادۃ)
(ظاہری حنفی) مذہب یہ ہے کہ نماز عید الفطر فوت ہونے پر اس کی قضا نہیں ہے ۔
(ہدایہ) کی بعض شرحون میں ہے کہ اگر چاہے تو دو یا چار رکعت صلوۃ ضحی پڑھ لے۔جیسا کہ ابن مسعود سے اسنار صحیح سے مروی ہے کہ جس کی نماز عید الفطر فوت ہوجائے وہ گھر پر چار رکعت پڑھ لے(کذافی فتحالباری) کہا گیا ہے کی پہلی رکعت میں سبح اسم ، دوسری میں وال شمس، تیسری میں واللیل ، چوتھی میں والضحا پڑھیں۔( ابن مسعود) کا کہنا ہے کہ یہ بہت فضیلت اور ثواب والی نماز ہے۔
(مذھب امام احمد ) میں بھی نماز عید فوت ہونے پر چار رکعت نماز تطوع کی طرح ایک سلام سے پڑھے۔ ابنے مسعود کے اثر کی بناء پر۔
(کرمانی) کا کہنا ہے جب امام کے ساتھ نماز عیدالفطر عیدگاہ میں فوت ہو جائے تو ( امام مالک اور شافعی) کے نزدیک گھر پر دو رکعت پڑھی جائے گی۔اور (امام احمد) کے نزدیک چار رکعات اور ( امام ابو حنیفہ) کا قول ہے پڑھیں یا نہ پڑھیں اختیار ہے اور چاہے دو رکعت پڑھے یا چار رکعت پڑھے۔
(درمختار) کے حاشیے میں ہے کے یہ چار رکعت پڑھنا مستحب ہے نہ کہ نماز عید الفطر کی قضا ۔
(شامی) میں ہے کے نماز عید الفطر عید گاہ میں فوت ہونے پر گھر پر چار رکعت چاشت کی پڑھے نہ کے عیدالفطر کی قضا ۔اور نہ اس میں زاءد تکبیر کہیں گے۔
اوپر کے احکام کے پیش نظر عید الفطر کی نماز عید گاہ میں ادا نہ کرنے پر اپنے اپنے گھر پر چار رکعت صلوٰۃ ضحا (نماز اے چاشت) ایک سلام سے پڑھی جائے گی۔
نماز کی نیت
نیت کرتا ہوں میں چار رکعت نماز ،نماز ضحا کی خالص اللہ تعالی کے واسطے منہ میرا طرف کعبہ شریف کے اللہ اکبر ۔
نماز کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک العلی اور دوسری رکعت میں والشمس اور تیسری رکعت میں واللیل اور چوتھی رکعت میں والضحی اسماء پڑھی بہت فضیلت اور ثواب ہے۔اور اگر کچھ نہ یاد ہو تو چاروں رکعت میں ایک بار یا تین بار قل ھواللہ احد پڑھیں۔اگر ان پانچوں صورتوں میں سے کچھ بھی نہ یاد ہو تو جو یاد ہو وہی پڑھ لیں۔یہ نماز اونچی آواز سے نہیں پڑھی جائے گی۔
واللہ اعلم وحکمہاحکم حررہ مفتی ابو العرفان حنفی قادری فرنگی محلی
اللہ تعالی سے توبہ استغفار کریں اپنے گناہوں کے لئے اور رمضان کے اعمال کی قبولیت کے لیےاور مصیبتوں آفتوں اور کورونا وائرس جیسی وبا سے نجات کے لئے۔
روایت ہے کہ عید کے دن سب صحابہ اکرام خوشیاں منا رہے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق بیٹھے رو رہے تھے لوگوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا خوشی اس کو کرنا چاہیے جس کو یقین ہو کہ اس کے اعمال قبول ہو گئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو اللہ کی بارگاہ میں توبہ استغفار کرکے رونا چاہیے اور اپنے گناہوں کی معافی و بخشش کرانا چاہیے۔
آج کے ماحول میں ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے سے پوری دنیا غم ہو الام کا شکار ہے،اور ہر جگہ لاکھوں آدمی طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہیں ایسی حالت میں ہمارا دل گوارا نہیں کرتا کہ ہم خوشی منائی جبکہ ہماری عیدگاہ اور مسجدیں بھی غیر آباد ہیں جہاں ہم اپنے اللہکا شکرانہ بھی ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
لہذا ہم کو اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگنا پڑے گی کی ہمارے ملک سے تمام لوگوں کی مصیبتوں کو دور کریں اور ہمارے گناہوں کو معاف کریں ۔ہمارے ملک میں امن و امان قائم ہو اور ہم اپنے اللہ کی عبادت کرنے کے قابل بن جائیں۔ اگر سچے دل سے ہم دعا کریں گے تو ہو سکتا ہثے اللہ تعالی ہمارے آنسوؤں کو دیکھ کر ہماری محرومیوں کو دور کرکے نقصان کو فائدے میں بدل دے ( اننمل اعمالو بنیاد) ہمارے کاموں کا دارومدار ہماری اچھی نیت پر ہے۔اور ہم اللہ سے امید کرتے ہیں کہ وہی ہیں ہماری مصیبتوں کو دور کرنے والا ہے ہے اور ہم کو کو آزاد دنیا اور آخرت سے بچانے والا ہے ۔