ETV Bharat / state

Naseem Nikhat Passes Away معروف غزل گو شاعرہ نسیم نکہت کا انتقال، اردو دنیاں سوگوار

author img

By

Published : Apr 29, 2023, 10:37 PM IST

معروف اور ممتاز غزل گو شاعرہ ڈاکٹر نسیم نکہت کا آج لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر اردو کے سبھی شعرا نے شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔

معروف و ممتاز غزل گو شاعرہ نسیم نکہت کا انتقال، اردو دنیاں سوگوار
معروف و ممتاز غزل گو شاعرہ نسیم نکہت کا انتقال، اردو دنیاں سوگوار

لکھنؤ: معروف اور ممتاز غزل گو شاعرہ ڈاکٹر نسیم نکہت کا طویل علالت کے بعد آج حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر اردو کے سبھی شعرا نے شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی سماجی سیاسی و ملی شخصیات نے تعزیت پیش کی ہے۔ ان کی تدفین لکھنؤ کے عیش باغ میں واقع ملک جہاں قبرستان میں رات 9 بجے عمل آئی۔

واضح رہے کہ مرحومہ ڈاکٹر نسیم نکہت اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں 10 جون 1958 کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے اردو اور اردو شاعری میں واقعہ کربلا کے موضوع پر 1993 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مستقل طور پر لکھنؤ میں مقیم ہوگئیں۔ اس دوران قومی و بین الاقوامی سطح پر مشاعروں میں اردو کی نمائندگی کی، ساتھ ہی اپنی مترنم آواز سے سامعین میں مفرد مقبولیت حاصل کی۔

ان کی تصانیف کے نام ہیں
دھواں دھواں
خواب دیکھنے والوں
مرا انتظار کرنا
بھیگی آنکھیں(دیوناگری)
پھولوں کا بوجھ( دیوناگری )
اردو شاعری میں واقعہ کربلا( تحقیقی مقالہ)
مشاعرے دیدہ و شنیدہ( مقالہ)

مولانا ازاد سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں ان کی شاعری پر ایم فل ہوچکی ہے۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مشاعروں میں شرکت کی ہیں۔ مرحومہ کو مشاعروں کی دنیان میں منفرد مقام حاصل تھا۔ اس کے لئے وہ خاصی شہرت رکھتی تھیں۔

ڈاکٹر نسیم نکہت کا نمونہ کلام بطور خراج عقیدت

غزل 1

بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے

ہم لوگ دکھاوے کی محبت نہیں کرتے

ملنا ہے تو آ جیت لے میدان میں ہم کو

ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے

طوفان سے لڑنے کا سلیقہ ہے ضروری

ہم ڈوبنے والوں کی حمایت نہیں کرتے

غزل 2

غالبؔ کا رنگ میرؔ کا لہجہ مجھے بھی دے

لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ مجھے بھی دے

تیری نوازشیں ہیں ہر اک خاص و عام پر

دریا ہے تیرا نام تو قطرہ مجھے بھی دے

سجدوں کو میرے پھر تری چوکھٹ نصیب ہو

منزل تلک پہنچنے کا رستہ مجھے بھی دے

آخر مری دعا سے اثر کیوں چلا گیا

میری بھی سن لے خوشیوں کا تحفہ مجھے بھی دے

سب کی مرادیں آئیں بھری سب کی جھولیاں

دامن مرا ہی خالی ہے مولیٰ مجھے بھی دے

غزل۔۔3

کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے

نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری
تری داستاں سے جیسے میری ذات کٹ گئی ہے

یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے

ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر
تری آرزو میں اکثر یوں ہی رات کٹ گئی ہے

نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے

یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ
کہیں پر تو شہہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے۔

ان کی وفات پر معروف شاعر شکیل اعظمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ ڈاکٹر نسیم نکہت بھارت کی ان معدودے چند شاعرات میں ایک تھیں جو پڑھتی بھی تھیں اور لکھتی بھی تھیں ۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ ادب کے سفر اور مشاعروں کے منچ پر گزارا۔ انہوں نے ترقی پسندوں کا زمانہ بھی دیکھا تھا، جدیدیت کا پس منظر بھی اور مابعد جدیدیت کو بھی قبول کیا تھا۔ وہ مشاعروں کی سنجیدہ اور کامیاب شاعرہ کے طور پر جانی جاتی تھیں لیکن ادب سے بھی سروکار رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے شوہر پپلو لکھنوی و دیگر متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ ان کے علاوہ متعدد شعرا نے تعزیت پیش کی ہے۔

موت یوں آتی ہے جیسے آدمی کچھ بھی نہیں
زندگی سب کچھ ہے لیکن زندگی کچھ بھی نہیں

شکیل اعظمی

لکھنؤ: معروف اور ممتاز غزل گو شاعرہ ڈاکٹر نسیم نکہت کا طویل علالت کے بعد آج حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر اردو کے سبھی شعرا نے شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی سماجی سیاسی و ملی شخصیات نے تعزیت پیش کی ہے۔ ان کی تدفین لکھنؤ کے عیش باغ میں واقع ملک جہاں قبرستان میں رات 9 بجے عمل آئی۔

واضح رہے کہ مرحومہ ڈاکٹر نسیم نکہت اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں 10 جون 1958 کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ایم اے اردو اور اردو شاعری میں واقعہ کربلا کے موضوع پر 1993 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مستقل طور پر لکھنؤ میں مقیم ہوگئیں۔ اس دوران قومی و بین الاقوامی سطح پر مشاعروں میں اردو کی نمائندگی کی، ساتھ ہی اپنی مترنم آواز سے سامعین میں مفرد مقبولیت حاصل کی۔

ان کی تصانیف کے نام ہیں
دھواں دھواں
خواب دیکھنے والوں
مرا انتظار کرنا
بھیگی آنکھیں(دیوناگری)
پھولوں کا بوجھ( دیوناگری )
اردو شاعری میں واقعہ کربلا( تحقیقی مقالہ)
مشاعرے دیدہ و شنیدہ( مقالہ)

مولانا ازاد سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد میں ان کی شاعری پر ایم فل ہوچکی ہے۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک میں بے شمار مشاعروں میں شرکت کی ہیں۔ مرحومہ کو مشاعروں کی دنیان میں منفرد مقام حاصل تھا۔ اس کے لئے وہ خاصی شہرت رکھتی تھیں۔

ڈاکٹر نسیم نکہت کا نمونہ کلام بطور خراج عقیدت

غزل 1

بنجارے ہیں رشتوں کی تجارت نہیں کرتے

ہم لوگ دکھاوے کی محبت نہیں کرتے

ملنا ہے تو آ جیت لے میدان میں ہم کو

ہم اپنے قبیلے سے بغاوت نہیں کرتے

طوفان سے لڑنے کا سلیقہ ہے ضروری

ہم ڈوبنے والوں کی حمایت نہیں کرتے

غزل 2

غالبؔ کا رنگ میرؔ کا لہجہ مجھے بھی دے

لفظوں سے کھیلنے کا سلیقہ مجھے بھی دے

تیری نوازشیں ہیں ہر اک خاص و عام پر

دریا ہے تیرا نام تو قطرہ مجھے بھی دے

سجدوں کو میرے پھر تری چوکھٹ نصیب ہو

منزل تلک پہنچنے کا رستہ مجھے بھی دے

آخر مری دعا سے اثر کیوں چلا گیا

میری بھی سن لے خوشیوں کا تحفہ مجھے بھی دے

سب کی مرادیں آئیں بھری سب کی جھولیاں

دامن مرا ہی خالی ہے مولیٰ مجھے بھی دے

غزل۔۔3

کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے

نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری
تری داستاں سے جیسے میری ذات کٹ گئی ہے

یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے

ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر
تری آرزو میں اکثر یوں ہی رات کٹ گئی ہے

نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے

یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ
کہیں پر تو شہہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے۔

ان کی وفات پر معروف شاعر شکیل اعظمی نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ ڈاکٹر نسیم نکہت بھارت کی ان معدودے چند شاعرات میں ایک تھیں جو پڑھتی بھی تھیں اور لکھتی بھی تھیں ۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ ادب کے سفر اور مشاعروں کے منچ پر گزارا۔ انہوں نے ترقی پسندوں کا زمانہ بھی دیکھا تھا، جدیدیت کا پس منظر بھی اور مابعد جدیدیت کو بھی قبول کیا تھا۔ وہ مشاعروں کی سنجیدہ اور کامیاب شاعرہ کے طور پر جانی جاتی تھیں لیکن ادب سے بھی سروکار رکھتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے شوہر پپلو لکھنوی و دیگر متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ ان کے علاوہ متعدد شعرا نے تعزیت پیش کی ہے۔

موت یوں آتی ہے جیسے آدمی کچھ بھی نہیں
زندگی سب کچھ ہے لیکن زندگی کچھ بھی نہیں

شکیل اعظمی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.