لکھنو: بی ایس پی رکن پارلیمنٹ دانش علی کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ تبصرہ پر پارلیمنٹ کے سابق رکن عبید اللہ خان اعظمی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرانی پارلیمنٹ ہاؤس کو 'سنودھان سدن' کا نام دیا گیا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ آئین کو اسی 'سدن 'میں دفن کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی پارلیمنٹ میں ایک منتخب کردہ رکن پارلیمان کو گالی دینا، پوری قوم پر قابل اعتراض تبصرہ کرنا نہ صرف ایک رکن پارلیمان کو گالی دینا ہے بلکہ بھارتی آئین کو گالی دینا ہے، بھارت کو گالی دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب برسر اقتدار سیاسی جماعت منصوبہ بند طریقے سے کر رہی ہے، ابھی تک ہم پارلیمنٹ کے باہر اس طریقے کے جملے سنتے تھے جو ایک قوم کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں لیکن اب جب پارلیمنٹ میں بھی اس طریقے کی بات سامنے آرہی ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ بھارتی آئین کی توہین کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس رکن پارلیمان نے ایک منتخب ایم پی کو گالی دی ہے مجھے امید نہیں ہے کہ برسر اقتدار جماعت اس رکن پارلیمان کے خلاف کاروائی کر کے جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈالے گی بلکہ مجھے اس بات کا انتظار ہے کہ اس کو اس کے بدلے میں کن انعامات سے نوازتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کنور دانش علی کی جگہ اگر عبید اللہ خان اعظمی ہوتا تو مجھے اس بات پر کوئی تردد اور تفکر نہیں ہوتا اگر مگر کی بات نہیں ہوتی، میں فورا پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفی دیتا تاکہ دنیا کو یہ بات پتہ چلتی کہ جس آئین نے بھارتی شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے ضمانت دی ہے اسی کے خلاف اس طرح کے گالی جیسے کلمات استعمال کیے جا رہے ہیں، جب میرا حق ہی محفوظ نہیں ہے تو ہم پارلیمنٹ ہاؤس میں رہ کر کیا کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اختلاف کی تمام سیاسی رہنماؤں سے میں اپیل کرتا ہوں کہ ہوش کے ناخن لیں اور جس طریقے سے نفرت کا زہر بویا جا رہا ہے اس کے خلاف میدان جنگ میں آئیں، اور یہ جنگ نفرت کے خلاف محبت کی جنگ ہوگی اور جمہوری نظام کے تمام تر اقدار کو پامال ہونے سے بچانے کی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر جماعتیں اپنی خودغرضیوں کو دفن کر ملک کے تحفظ کے حق میں فیصلہ لیں۔ ورنہ 2024 کے بعد بھی اگر ایسا ماحول رہا تو بھارت کے آزادی کے لیے جد جہد کرنے والے آزادی کے متوالے کی روحیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
مزید پڑھیں: مسلم رکن پارلیمان کے ساتھ توہین آمیز سلوک مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا، مدنی
انہوں نے انڈیا اتحاد کے بارے میں اپنی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد میں کسی بھی مسلم سیاسی جماعت کو شامل نہیں کیا گیا ہے یہ گٹھ بندھن ہے یا ٹھگ بندھن ہے، اس کا جواب تو انڈیا اتحاد کے ذمہ داران ہی دے سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے کیا ان کا کیا بگاڑا تھا کہ ان کو شامل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے اگرچہ انڈیا اتحاد کو کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے اس ملک کا مسلمان بہت ہی ہوش مند ہے اور ذی شعور ہے جب بھی ذاتی مفاد کے بدلے جماعت کی مفاد سامنے آئی ہے تو ملک کے مسلمانوں نے جماعت کو سر بلند کیا ہے اور اسی کی فتح کو اپنی کامیابی سمجھا ہے۔
وزیراعظم کے پسماندہ مسلمانوں کے حوالے سے خیال پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو اب پسماندہ مسلمانوں کا خیال آیا ہے، یہ خیال اس وقت بھی آسکتا تھا جب وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے تھے یعنی 2014 میں بھی پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں فکرمند ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پسماندہ مسلمانوں کے بارے میں اس وقت خیال آیا جب ان کی کشتی ڈوبنے لگ گئی ہے۔ جب تک پسماندہ مسلمانوں کو حقوق کو نہیں دیے جائیں گے وہ بی جے پی کے ساتھ ہرگز نہیں آسکتے، یہ ایک انتخابی جملہ ہے۔