ریاست اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں اتراکھنڈ و میزوم کے سابق گورنر عزیز قریشی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت میں ملک کے کئی بڑے اہم مسائل پر اظہار خیال کیا۔
ایودھیا معاملے پر عدالت عظمی کے ذریعے دیئے گئے فیصلے پر انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے سے خوش نہیں ہوں کیونکہ ملک کے سبھی مسلمانوں کو اس کا ملال ہے اور دکھ بھی ہے لیکن ریویو پٹیشن داخل کرنے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو ختم کر دینا چاہیے اور اپنی تعمیر و ترقی میں لگ جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کے ذریعے جو پانچ ایکڑ زمین دی گئی ہے اسے بھی مندر کو وقف کر دینا چاہیئے۔
سادھوی پرگیہ کو وزارت دفاع کی ایک کمیٹی میں رکن بنانے پر انہوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے لیے شرمناک ہے جو شخص بم بلاسٹ کا ملزم ہو اسے کیسے وزارت دفاع کی کمیٹی کا رکن بنایا جاسکتا ہے۔
گزشتہ روز لکھنؤ کی معروف یونیورسٹی خواجہ معین الدین چشتی عربی اردو فارسی یونیورسٹی میں تقسیم اسناد کا پروگرام ہوا تھا جس نے موجودہ گورنر آنندی بین پٹیل نے نائب وزیراعلی دنیش شرما کو مشورہ دیا تھا کہ یونیورسٹی کے نام تبدیل کردیا جائے اور خواجہ معین الدین چشتی رکھا جائے اور اردو عربی فارسی کو ہٹا دیا جائے۔
اس پر سابق گورنر عزیز قریشی نے کہا کہ یہ شرمناک ہے بے بنیاد چیزیں ہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں کئی سنسکرت یونیورسٹیاں چلتی ہیں تو کیا ان کا نام بدل دینا چاہیے انہوں نے کہا کہ گورنر ہوتے ہوئے ایسی باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اور بی جے پی نام بدلنے میں مسلسل کوشاں ہے اور ایک دن وہ بھارت کا بھی نام بدل دیں گے۔
مہاراشٹر میں کانگریس این سی پی اور شیوسینا کی مشترکہ حکومت سازی پر انہوں نے کہا کہ کانگریس کو شیوسینا اور این سی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہیے۔