ETV Bharat / state

Professor Asghar Abbas passed away اے ایم یو کے پروفیسر اصغر عباس کے انتقال پر رنج وغم کی لہر - EX Director SIR Syed Academy

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سبکدوش استاد، سرسید اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹراور شعبہ اردو کے سابق چیئرمین پروفیسر اصغر عباس کا نئی دہلی کے ایک ہسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ پروفیسر اصغر عباس کی عمر 80 برس تھی۔ انہیں آج صبح یو نیورسٹی کے قبرستان میں سُپرد خاک کیا گیا۔Professor Asghar Abbas passed away

اے ایم یو میں پروفیسر اصغر عباس کے انتقال پر رنج وغم کی لہر
اے ایم یو میں پروفیسر اصغر عباس کے انتقال پر رنج وغم کی لہر
author img

By

Published : Sep 8, 2022, 7:57 PM IST

علی گڑھ: اترپردیش کے علی گڑھ میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ میں پروفیسر اصغر کے اہل خانہ اور اے ایم یو برادری کو اپنی گہری تعزیت پیش کرتا ہوں اور اس مشکل وقت میں ان کے بہی خواہوں کے لیے دعا گو ہوں۔ وہ ایک بے لوث انسان تھے جنہوں نے سرسید اسٹڈیز میں بنیادی علمی کاموں کے لئے ایک دانشور اور تجربہ کار ماہر تعلیم کے طور پر تحسین و تعریف اور احترام و عزت حاصل کی"۔ EX Director SIR Syed Academy AND Professor Asghar Abbas passed away

وائس چانسلر نے مزید کہا کہ 'سر سید پر پروفیسر اصغر کی کتابیں پڑھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ان کی زبردست تحقیق ان سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے جن کا سامنا سرسید نے اس دور میں کیا جب انہوں نے تعلیمی تحریک شروع کی اور انھوں نے کس طرح اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کی۔ عصر حاضر کے محققین پروفیسر اصغر کے علمی کاموں سے سیکھ سکتے ہیں"۔

اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا "پروفیسر اصغر عباس نے ان تمام اقدار و روایات کی نمائندگی کی جن کی ہم اے ایم یو میں قدر کرتے ہیں۔ انہیں سرسید کی زندگی اور خدمات پر بھر پور مواد اور تازہ تشریحات فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ یادرکھا جائے گا"۔

معروف اسکالر اور انسٹی ٹیوٹ آف پرشیئن ریسرچ کی اعزازی ڈائرکٹر پروفیسر آذمی دخت صفوی نے کہا ’’پروفیسر اصغر نے خود کو تدریس اور ایڈمنسٹریشن تک محدود نہ رکھ کر سرسید کی فکری اور سماجی زندگی پر گرانقدر اور با معنی خدمات انجام دیں اور ایک قیمتی میراث چھوڑی ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں اورتحقیقی مقالے اس امر کی تفصیل فراہم کرتے ہیں کہ 1857 کی بغاوت کے بعد مغل سلطنت کے خاتمے پر سرسید نے تعلیم کے ذریعے عام ہندوستانیوں کی اصلاح کے لیے متنوع کوششوں کے ذریعے کیسا ردعمل ظاہر کیا"۔

پروفیسر ایس امتیاز حسنین (ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے کہا "پروفیسر اصغر نے عمرہ زندگی گزاری۔ وہ ایک اعلی معیار کے ماہر، رفقا، اور طلباء کے لیے ایک عمدہ سر پرست اور ایک شاندار انسان تھے جس نے ہر ایک کو اپنی بہترین کوشش کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے سوگوار کنبے اور اے ایم یو برادری کے ساتھ میری گہری ہمدردی ہے"

صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا "پروفیسر اصغر یونیورسٹی کے ان اہم لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے شعبہ اردو کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا۔انہوں نے اپنی انفرادیت سے فیکلٹی اور طلباء کی ایک نسل کو متاثر کیا"۔

سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا "پروفیسر اصغر نے اپنے علم و استعداد سے بہت سی زندگیوں کو متاثر کیا اور بے شمار طلباء کو صحیح راستے پر چلنے میں مددکی۔ سر سید اکیڈمی میں ان کی خدمات اور سرسید کی زندگی پر ان کے کاموں نے محققین کو انیسویں صدی کے ہندوستان میں ثقافتی شناخت کی نوعیت اور نو آبادیاتی حکمرانی کے دور میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں ہمیشہ مدد ملے گی"۔

یہ بھی پڑھیں:World Dairy Summit in Noida عالمی دودھ کانفرنس میں 300 غیر ملکی مندوبین شریک ہوں گے

پروفیسر اصغر عباس اے ایم یو کے شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد 1974 میں ایک نو جوان لیکچرر کے طور پر اے ایم یو سے وابستہ ہوۓ۔ بعد میں وہ ریڈر اور پھر پروفیسر مقرر ہوۓ۔ انھوں نے کئی برسوں کی محنت شاقہ کے ساتھ علمی خدمات انجام دے کر کرانمٹ نقوش ثبت کئے۔

پروفیسر اصغر 2002 میں اے ایم یو میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہوئے۔ انہیں 2020 میں اتر پردیش اردو اکامی کا مولانا آزادایوارڈ ملا ۔ پروفیسر اصغر 17 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن میں "سر سید کی صحافت"، "سید کا سفر نامہ : مسافران لندن"، "سرسید، اقبال اور علی گڑھ" اردو کا جمالیاتی ادب اور علیگڑھ" بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

علی گڑھ: اترپردیش کے علی گڑھ میں واقع علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ میں پروفیسر اصغر کے اہل خانہ اور اے ایم یو برادری کو اپنی گہری تعزیت پیش کرتا ہوں اور اس مشکل وقت میں ان کے بہی خواہوں کے لیے دعا گو ہوں۔ وہ ایک بے لوث انسان تھے جنہوں نے سرسید اسٹڈیز میں بنیادی علمی کاموں کے لئے ایک دانشور اور تجربہ کار ماہر تعلیم کے طور پر تحسین و تعریف اور احترام و عزت حاصل کی"۔ EX Director SIR Syed Academy AND Professor Asghar Abbas passed away

وائس چانسلر نے مزید کہا کہ 'سر سید پر پروفیسر اصغر کی کتابیں پڑھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ان کی زبردست تحقیق ان سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے جن کا سامنا سرسید نے اس دور میں کیا جب انہوں نے تعلیمی تحریک شروع کی اور انھوں نے کس طرح اپنے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کی۔ عصر حاضر کے محققین پروفیسر اصغر کے علمی کاموں سے سیکھ سکتے ہیں"۔

اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا "پروفیسر اصغر عباس نے ان تمام اقدار و روایات کی نمائندگی کی جن کی ہم اے ایم یو میں قدر کرتے ہیں۔ انہیں سرسید کی زندگی اور خدمات پر بھر پور مواد اور تازہ تشریحات فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ یادرکھا جائے گا"۔

معروف اسکالر اور انسٹی ٹیوٹ آف پرشیئن ریسرچ کی اعزازی ڈائرکٹر پروفیسر آذمی دخت صفوی نے کہا ’’پروفیسر اصغر نے خود کو تدریس اور ایڈمنسٹریشن تک محدود نہ رکھ کر سرسید کی فکری اور سماجی زندگی پر گرانقدر اور با معنی خدمات انجام دیں اور ایک قیمتی میراث چھوڑی ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں اورتحقیقی مقالے اس امر کی تفصیل فراہم کرتے ہیں کہ 1857 کی بغاوت کے بعد مغل سلطنت کے خاتمے پر سرسید نے تعلیم کے ذریعے عام ہندوستانیوں کی اصلاح کے لیے متنوع کوششوں کے ذریعے کیسا ردعمل ظاہر کیا"۔

پروفیسر ایس امتیاز حسنین (ڈین فیکلٹی آف آرٹس نے کہا "پروفیسر اصغر نے عمرہ زندگی گزاری۔ وہ ایک اعلی معیار کے ماہر، رفقا، اور طلباء کے لیے ایک عمدہ سر پرست اور ایک شاندار انسان تھے جس نے ہر ایک کو اپنی بہترین کوشش کرنے کی ترغیب دی۔ ان کے سوگوار کنبے اور اے ایم یو برادری کے ساتھ میری گہری ہمدردی ہے"

صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا "پروفیسر اصغر یونیورسٹی کے ان اہم لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے شعبہ اردو کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا۔انہوں نے اپنی انفرادیت سے فیکلٹی اور طلباء کی ایک نسل کو متاثر کیا"۔

سرسید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا "پروفیسر اصغر نے اپنے علم و استعداد سے بہت سی زندگیوں کو متاثر کیا اور بے شمار طلباء کو صحیح راستے پر چلنے میں مددکی۔ سر سید اکیڈمی میں ان کی خدمات اور سرسید کی زندگی پر ان کے کاموں نے محققین کو انیسویں صدی کے ہندوستان میں ثقافتی شناخت کی نوعیت اور نو آبادیاتی حکمرانی کے دور میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں ہمیشہ مدد ملے گی"۔

یہ بھی پڑھیں:World Dairy Summit in Noida عالمی دودھ کانفرنس میں 300 غیر ملکی مندوبین شریک ہوں گے

پروفیسر اصغر عباس اے ایم یو کے شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد 1974 میں ایک نو جوان لیکچرر کے طور پر اے ایم یو سے وابستہ ہوۓ۔ بعد میں وہ ریڈر اور پھر پروفیسر مقرر ہوۓ۔ انھوں نے کئی برسوں کی محنت شاقہ کے ساتھ علمی خدمات انجام دے کر کرانمٹ نقوش ثبت کئے۔

پروفیسر اصغر 2002 میں اے ایم یو میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہوئے۔ انہیں 2020 میں اتر پردیش اردو اکامی کا مولانا آزادایوارڈ ملا ۔ پروفیسر اصغر 17 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن میں "سر سید کی صحافت"، "سید کا سفر نامہ : مسافران لندن"، "سرسید، اقبال اور علی گڑھ" اردو کا جمالیاتی ادب اور علیگڑھ" بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.