ETV Bharat / state

مسلم معاشرہ تعلیم سے آج بھی دور ہے: ڈاکٹر نعمان خان

سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز کے چیئرمین ڈاکٹر نعمان خان ہیں جو جونپور میں چار انگلش میڈیم اسکول چلا رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں، ڈاکٹر نعمان خان مشہور و معروف عالم دین و مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا ابو العرفان خان ندوی کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ ڈاکٹر نعمان خان چیئرمین سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز سے ای ٹی وی بھارت کی خصوصی گفتگو ETV Bharat exclusive Interview with Dr Nauman Khan Chairman St Joseph Group of Schools

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 24, 2023, 7:41 PM IST

Etv Bharat
etv-bharat-exclusive-interview
ڈاکٹر نعمان خان

جونپور: ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور ماضی میں علم و ادب کا سینٹر اور مرکز ہوا کرتا تھا جس کا شہرہ پوری دنیا میں تھا۔ اسی بنا پر مغل بادشاہ شاہجہاں نے جونپور کو شیرازِ ہند کے خطاب سے نوازا تھا۔ مگر ماضی کی یہ باتیں اب تواریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ جس پر اہل جونپور کو آج بھی رشک ہے۔ ماضی میں شان و شوکت کا مالک جونپور اب اپنی بے نوری و بے بسی پر ماتم کناں ہے۔ حال میں چند ایسے افراد ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی تعلیمی خدمات کی بنا پر جونپور کو دوبارہ شیراز ہند بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Future of Muslim Society: مسلم معاشرے اور نوجوانوں کے مستقبل سنوارے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے،شاہد نور

انہیں میں ایک شخصیت سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز کے چیئرمین ڈاکٹر نعمان خان ہیں جو جونپور میں چار انگلش میڈیم اسکول چلا رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں، ڈاکٹر نعمان خان مشہور و معروف عالم دین و مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا ابو العرفان خان ندوی کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ نعمان خان عربی، اردو، انگلش اور ہندی زبان کے ماہر ہیں۔ جن کی شناخت جونپور میں ایک ماہر تعلیمات و سماجی کارکن کے طور پر ہے۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے نعمان خان سے تعلیم کو لیکر خصوصی گفتگو کی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کیونکہ وہ ندوۃ العلماء کے مہتمم تھے۔ میرے والد تعلیمی معاملات اور مینیجمنٹ کو ایک ساتھ لیکر چلتے تھے۔

مرے اندر فکر وہیں سے پیدا ہوئی اور میں جب 1988 میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو کچھ لوگوں کو درس دینا شروع کیا۔ مگر میں نے دیکھا کہ مسلم معاشرہ تعلیم سے دور ہے۔ انہیں کتابی جانکاری تو ہے پر وہ عملی طور پر کمزور ہیں۔ تو میں نے متعدد جگہ نوکری کرنے کے بعد مجھے خود کا اسکول کھولنے کا خیال آیا۔ جب میں نے پہلا اسکول قائم کیا تو اس کا نام سینٹ جوزف رکھا۔ لوگوں نے اعتراض بھی جتایا۔ میں نے یہ کہا کہ یہ وہ نام ہے جو نبی کے نام منسوب ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف کو انگلش میں سینٹ جوزف لکھا جاتا ہے۔ آج وہ مسلم بچے میرے اسکول میں داخل ہوئے ہیں۔ جن کا رجحان مشینری اسکولوں میں پڑھ کر کرسچنیٹی کی طرف ہو گیا تھا۔ میں نے ان کی ذہن سازی کی۔ ساتھ ہی میں نے ہندو و مسلم دونوں کو ساتھ لیکر چلا۔ چنانچہ اپنے اسکول میں میں نے بچوں کو یہ سکھایا کہ مسلم بچے گوڈ مارننگ سے پہلے سلام کریں اور غیر مسلم بچے نمسکار کہیں تاکہ جس سے ان کی تہذیب کا بھی پتہ چلے۔



انہوں نے کہا کہ ہاں اس بات کا دکھ ضرور ہے کہ مسلم بچے اردو سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ جب کہ میں نے سی بی ایس سی بورڈ سے انٹر تک اردو لے رکھا ہے۔ مسلم بچوں کے لیے مگر یہ بچوں کی کمی ہے یا والدین کی مصروفیات ہے بلکہ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ غیر مسلم بچے ہمارے اسکول میں اردو سیکھ، پڑھ رہے ہیں۔ مسلم بچے اردو نہیں لیتے اگر لیتے تو ان کا فیصد بھی بڑھ جاتا، انہوں نے کہا کہ میرے گھر میں ماحول اردو و عربی کا تھا جب کہ مجھے خود یہ دونوں زبانیں آتی ہیں۔ مگر میں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انگلش میڈیم اسکول کو قائم کیا اور حکمت عملی سے کیسے کام کرنا ہے۔ یہ میں نے الرحیق المختوم کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے سیکھا۔



نعمان خان نے کہا کہ میرے 6 بھائیوں کی کمی رہی کہ اپنے والد کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کیا۔ کہ جس سے میرے والد کا نام عمومی سطح پر مشہور ہو سکے اور میرے والد بھی سادگی پسند تھے۔ وہ نام و نمود سے گریز کرتے تھے۔ جب کہ ان کے پاس وسائل و ذرائع بہت تھے۔ البتہ اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگوں کے لیے کوئی ہاسپٹل یا میڈیکل اسٹور کھولا جائے۔ جس سے انہیں مفت دوا مل سکے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کوئی ایسی یادگاری چیز بنائی جائے جس سے ہم لوگوں کو تاعمر اس کا ثواب اور طالب علموں کو فائدہ ملتا رہے۔



ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے۔ دوسری قوموں کے بچے آج بھی آگے ہیں۔ صرف آج وہی بچے آگے بڑھ رہے ہیں جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔ وہی مقابلہ جاتی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ مسلم معاشرہ کھانے، پینے، پہننے اور اونچی اونچی عمارت بنانے میں لگا ہے۔ اس کا دھیان تعلیم کی طرف نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار جونپور کا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر جونپور میں تعلیمی معیار میں کمی آئی ہے تو اس میں والدین کی کمی ہے۔ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ اپنے اوقات کو چائے خانوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر ضائع کر دیتے ہیں۔ باہر آب و ہوا لینا چاہیے۔ مگر انہیں اپنے گھر والوں کو وقت دینا چاہیے۔ بچوں کی پرورش و تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کے دائرہ میں ہمیشہ رہا ہوں۔ آپ کچھ بھی کر لو لوگ ہدف تنقید ضرور بناتے ہیں۔ آگے چل کر میرا ارادہ ہے کہ ایک بی یو ایم ایس کالج بنایا جائے۔

ڈاکٹر نعمان خان

جونپور: ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور ماضی میں علم و ادب کا سینٹر اور مرکز ہوا کرتا تھا جس کا شہرہ پوری دنیا میں تھا۔ اسی بنا پر مغل بادشاہ شاہجہاں نے جونپور کو شیرازِ ہند کے خطاب سے نوازا تھا۔ مگر ماضی کی یہ باتیں اب تواریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں درج ہیں۔ جس پر اہل جونپور کو آج بھی رشک ہے۔ ماضی میں شان و شوکت کا مالک جونپور اب اپنی بے نوری و بے بسی پر ماتم کناں ہے۔ حال میں چند ایسے افراد ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی تعلیمی خدمات کی بنا پر جونپور کو دوبارہ شیراز ہند بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Future of Muslim Society: مسلم معاشرے اور نوجوانوں کے مستقبل سنوارے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے،شاہد نور

انہیں میں ایک شخصیت سینٹ جوزف گروپ آف اسکولز کے چیئرمین ڈاکٹر نعمان خان ہیں جو جونپور میں چار انگلش میڈیم اسکول چلا رہے ہیں۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں، ڈاکٹر نعمان خان مشہور و معروف عالم دین و مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ مولانا ابو العرفان خان ندوی کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ نعمان خان عربی، اردو، انگلش اور ہندی زبان کے ماہر ہیں۔ جن کی شناخت جونپور میں ایک ماہر تعلیمات و سماجی کارکن کے طور پر ہے۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے نعمان خان سے تعلیم کو لیکر خصوصی گفتگو کی ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کیونکہ وہ ندوۃ العلماء کے مہتمم تھے۔ میرے والد تعلیمی معاملات اور مینیجمنٹ کو ایک ساتھ لیکر چلتے تھے۔

مرے اندر فکر وہیں سے پیدا ہوئی اور میں جب 1988 میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو کچھ لوگوں کو درس دینا شروع کیا۔ مگر میں نے دیکھا کہ مسلم معاشرہ تعلیم سے دور ہے۔ انہیں کتابی جانکاری تو ہے پر وہ عملی طور پر کمزور ہیں۔ تو میں نے متعدد جگہ نوکری کرنے کے بعد مجھے خود کا اسکول کھولنے کا خیال آیا۔ جب میں نے پہلا اسکول قائم کیا تو اس کا نام سینٹ جوزف رکھا۔ لوگوں نے اعتراض بھی جتایا۔ میں نے یہ کہا کہ یہ وہ نام ہے جو نبی کے نام منسوب ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف کو انگلش میں سینٹ جوزف لکھا جاتا ہے۔ آج وہ مسلم بچے میرے اسکول میں داخل ہوئے ہیں۔ جن کا رجحان مشینری اسکولوں میں پڑھ کر کرسچنیٹی کی طرف ہو گیا تھا۔ میں نے ان کی ذہن سازی کی۔ ساتھ ہی میں نے ہندو و مسلم دونوں کو ساتھ لیکر چلا۔ چنانچہ اپنے اسکول میں میں نے بچوں کو یہ سکھایا کہ مسلم بچے گوڈ مارننگ سے پہلے سلام کریں اور غیر مسلم بچے نمسکار کہیں تاکہ جس سے ان کی تہذیب کا بھی پتہ چلے۔



انہوں نے کہا کہ ہاں اس بات کا دکھ ضرور ہے کہ مسلم بچے اردو سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ جب کہ میں نے سی بی ایس سی بورڈ سے انٹر تک اردو لے رکھا ہے۔ مسلم بچوں کے لیے مگر یہ بچوں کی کمی ہے یا والدین کی مصروفیات ہے بلکہ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ غیر مسلم بچے ہمارے اسکول میں اردو سیکھ، پڑھ رہے ہیں۔ مسلم بچے اردو نہیں لیتے اگر لیتے تو ان کا فیصد بھی بڑھ جاتا، انہوں نے کہا کہ میرے گھر میں ماحول اردو و عربی کا تھا جب کہ مجھے خود یہ دونوں زبانیں آتی ہیں۔ مگر میں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے انگلش میڈیم اسکول کو قائم کیا اور حکمت عملی سے کیسے کام کرنا ہے۔ یہ میں نے الرحیق المختوم کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے سیکھا۔



نعمان خان نے کہا کہ میرے 6 بھائیوں کی کمی رہی کہ اپنے والد کے لیے کوئی نمایاں کام نہیں کیا۔ کہ جس سے میرے والد کا نام عمومی سطح پر مشہور ہو سکے اور میرے والد بھی سادگی پسند تھے۔ وہ نام و نمود سے گریز کرتے تھے۔ جب کہ ان کے پاس وسائل و ذرائع بہت تھے۔ البتہ اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگوں کے لیے کوئی ہاسپٹل یا میڈیکل اسٹور کھولا جائے۔ جس سے انہیں مفت دوا مل سکے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کوئی ایسی یادگاری چیز بنائی جائے جس سے ہم لوگوں کو تاعمر اس کا ثواب اور طالب علموں کو فائدہ ملتا رہے۔



ڈاکٹر نعمان خان نے کہا کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کی کمی ہے۔ دوسری قوموں کے بچے آج بھی آگے ہیں۔ صرف آج وہی بچے آگے بڑھ رہے ہیں جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔ وہی مقابلہ جاتی امتحانات میں شاندار کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ مسلم معاشرہ کھانے، پینے، پہننے اور اونچی اونچی عمارت بنانے میں لگا ہے۔ اس کا دھیان تعلیم کی طرف نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ تعلیمی معیار جونپور کا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر جونپور میں تعلیمی معیار میں کمی آئی ہے تو اس میں والدین کی کمی ہے۔ ان کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ اپنے اوقات کو چائے خانوں اور چوراہوں پر بیٹھ کر ضائع کر دیتے ہیں۔ باہر آب و ہوا لینا چاہیے۔ مگر انہیں اپنے گھر والوں کو وقت دینا چاہیے۔ بچوں کی پرورش و تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کے دائرہ میں ہمیشہ رہا ہوں۔ آپ کچھ بھی کر لو لوگ ہدف تنقید ضرور بناتے ہیں۔ آگے چل کر میرا ارادہ ہے کہ ایک بی یو ایم ایس کالج بنایا جائے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.