ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع ملک کا معروف ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ہر برس ادارہ کے بانی سر سید احمد خان کی یوم پیدائش کے موقع پر قومی سطح پر مضمون نگاری کا انعقاد کیا جاتا ہے جو صرف انگریزی زبان میں ہوتا ہے۔ جس پر اے ایم یو کے طلبا کا کہنا ہے کہ مضمون نگاری صرف انگریزی زبان میں کرانے کا مطلب ہے کہ اردو اور ہندی زبان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔
ہر برس کی طرح اس برس بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی یوم پیدائش کے موقع پر قومی سطح پر مضمون نگاری کا انعقاد کیا جارہا ہے جس کا موضوع "سرسید چیمپئن آف ایجوکیشن اینڈ سوشل رینیسسن آف انڈین مسلم"(SIR SYED CHAMPION OF EDUCATION AND SOCIAL RENAISSANCE OF INDIAN MUSLIM) ہے جو صرف انگریزی زبان میں ہو رہا ہے۔ جس کو 10 اکتوبر سے پہلے اے ایم یو رابطہ عامہ دفتر تک اسپیڈ پوسٹ کوریئر کے ذریعے بھیجنا ہوگا اور جس کے انعامات کا اعلان 17 اکتوبر 2020 کو کیا جائے گا۔ انعامات کے طور پر25، 15 اور 10 ہزار روپے کی نقد رقم دی جائے گی۔ اگر یہی مضمون نگاری کا انعقاد انگریزی کے ساتھ اردو اور ہندی میں بھی ہوگا تو اس میں مدرسہ کے طلباء یا وہ طلباء بھی حصہ لے سکتے ہیں جن کو انگریزی نہیں آتی ہے۔ لیکن اتنا اہم اور تاریخی مضمون نگاری کا انعقاد صرف انگریزی زبان میں ہونا کہیں نہ کہیں اردو اور ہندی زبان کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔
یونیورسٹی کے طلباء رہنما محمد عارف کا کہنا ہے کہ ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح شعبہ رابطہ عامہ دفتر سے نوٹس جاری ہوا اور اس میں کہا گیا ہے کہ مضمون نگاری کا انعقاد صرف انگریزی زبان میں ہوگا تو میں اس کو غلط اور مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔
ہم بھارت میں رہتے ہیں اور تینوں زبان اہم ہیں۔ اگر ہم صرف انگریزی زبان کا استعمال کریں گے، اردو اور ہندی کو پیچھے چھوڑ دیں گے تو کہیں نہ کہیں یہ دونوں زبانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوگا۔
محمد عارف نے مزید کہا کہ میں وائس چانسلر سے سخت الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہم ترقی کی زبان کو اپنا تو سکتے ہیں لیکن اپنی مادری زبان کو بھول نہیں سکتے۔ اس لیے اس نوٹس کو فورا برخاست کیا جائے اور نیا نوٹس جاری کیا جائے جس میں تینوں زبان کا ذکر کیا جائے۔
اے ایم یو کے طالب علم رحمین نے کہا کہ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ تینوں زبان میں اس مضمون نگاری کا انعقاد ہونا چاہیے جس سے زیادہ سے زیادہ طلبا اس میں حصہ لے سکیں اور سب کو موقع ملے۔