ضلع بارہ بنکی مسجد انہدام کیس کے تعلق سے انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے ترجمان اطہر حسین نے کہا کہ 'ہمیں پوری امید ہے کہ جلد ہی مسجد کا فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا اور پہلے کی طرح غریب نواز مسجد میں نماز ادا کی جائے گی۔'
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے ترجمان اطہر حسین نے کہا کہ 'مسجد غریب نواز سو سالہ قدیم تھی اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج بھی تھی۔ جس طرح سے وہاں کی انتظامیہ نے خاص طور پر ایس ڈی ایم دیوانشو پٹیل نے ایک طرفہ کارروائی کرکے مسجد اپنی نگرانی میں منہدم کروایا ہے۔ وہ افسوسناک ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔'
اطہر حسین نے کہا کہ 'بھارت میں آئین ہے اور ملک ایک نظام و آئین سے چلتا ہے۔ ہمارے پاس واحد ایک راستہ ہے کہ ہم عدالت کے پاس جائیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ہائی کورٹ نے پہلے ہی فیصلہ محفوظ رکھ لیا اور بارہ بنکی کے ایس ڈی ایم اور دوسرے ریاستی افسران کو نوٹس جاری کیا ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'خصوصی مذہبی مقامات ایکٹ 1991 میں واضح کر دیا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو بنیاد مانتے ہوئے تمام مذہبی مقامات پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے یہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ تھی۔ اس ایکٹ میں 'بابری مسجد' کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔'
اطہر حسین نے بتایا کہ '9 نومبر 2019 کو بابری مسجد فیصلے کے دوران عدالت عظمیٰ نے 'پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991' کو بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کردیا تھا اور بنیادی ڈھانچے میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جاسکتی لہٰذا یہ ایکٹ پوری طرح محفوظ ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'بارہ بنکی واقع مسجد کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ وہاں کی مقامی انتظامیہ نے مسجد کے ٹائٹل کو ہی چیلنج کردیا تھا جو کہ بالکل غلط ہے۔ بارہ بنکی انتظامیہ نے یہ دعویٰ کردیا کہ یہ کبھی مسجد ہی نہیں تھی، یہ بالکل نئی طرح کی بات سامنے آئی ہے۔'
انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے ترجمان اطہر حسین نے بتایا کہ 'سنہ 1973 میں کیشو آنند بھارتی بمقابلہ کیرالا حکومت کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کی 13 رکنی بینچ نے واضح کردیا تھا کہ 'بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ پلیسیس آف ورشپ ایکٹ 1991 بنیادی ڈھانچے میں شامل ہے لہٰذا وہ پوری طرح محفوظ ہے۔'
ٹرسٹ کے ترجمان نے کہا کہ 'جن مقامی افسران نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کارروائی کی ہے، ان کے خلاف سیول کنٹیمپٹ اور کریمنل کنٹیمپٹ کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ کریمنل کنٹیمپٹ کی کارروائی کے لئے لکھنؤ واقع ٹیلے والی مسجد کے متولی مولانا واصف میاں کی طرف سے شارب نوید نے ایڈووکیٹ جنرل کو درخواست دی ہے کہ انہیں کریمنل کنٹیمپٹ کی کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی سیول کنٹیمپٹ کی پیٹیشن بھی ڈالی گئی ہے۔'
اطہر حسین نے کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ انصاف ملے گا اور میں ذاتی طور پر امید کرتا ہوں کہ بارہ بنکی ضلع انتظامیہ اپنی غلطی مانے اور اپنی طرف سے اسی جگہ پر مسجد کی تعمیر کروائے تاکہ لوگ نماز ادا کر سکیں۔ ہمیں عدالت پر پورا یقین ہے کہ انصاف ضرور ملے گا۔'
اس معاملے پر اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مؤرخہ 17 مئی 2021 کو تحصیل و ضلع انتظامیہ رام سنیہی گھاٹ، ضلع بارہ بنکی نے سب ڈویزنل مجسٹریٹ کی قیادت میں غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر رام سنیہی گھاٹ کی تحصیل احاطہ کے قریب موجود ایک سو سالہ مسجد کو منمانے و غیر قانونی طریقے سے منہدم کردیا گیا ہے، جس کی میں انتہائی مذمت کرتا ہوں۔"
واضح رہےکہ بارہ بنکی مسجد انتظامیہ کے حشمت علی و نعیم احمد اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے غریب نواز مسجد منہدم معاملے میں رٹ پٹیشن الہٰ آباد ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ سعود رئیس کے ذریعے داخل کی ہے۔ اس پٹیشن پر مسلم پرسنل لا بورڈ کی لیگل کمیٹی کے چیئرمین یوسف مچھالہ بحث کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بارہ بنکی: مسجد انہدام معاملے میں مخالف پارٹیوں کو نوٹس جاری
اس کے ساتھ ہی یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے بھی پٹیشن ایڈووکیٹ سید آفتاب احمد کے ذریعے داخل کی گئی ہے، جس پر سینئر ایڈووکیٹ جے دیپ ماتھر نے بحث کی۔ ان دونوں پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ 'مقامی افسران کے ذریعے انہدام کی کارروائی مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔
ہائی کورٹ نے اس معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا اور بارہ بنکی انتظامیہ کو نوٹس جاری کرکے تین ہفتوں میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔