ایودھیا: بابری مسجد کیس کے سابق وکیل حاجی محبوب نے گیان واپی کیس میں وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'گیان واپی معاملے میں عدالت کا فیصلہ مایوس کن ہے، یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ غلط ہے، تاہم اس معاملے میں مسلم فریق اوپری عدالت سے رجوع ہوں گے۔ حاجی محبوب نے کہا کہ 'اگر معاملے میں بابری جیسا کچھ ہوا تو اس سے ملک میں بدامنی کا ماحول پیدا ہوگا۔ Advocate Haji Mehboob on Gyanvapi Case
واضح رہے کہ گزشتہ روز گیان واپی معاملے میں وارانسی کی ضلعی عدالت نے کہا کہ یہ کیس قابل سماعت ہے۔ اس کیس کی اگلی شنوائی 22 ستمبر کو ہوگی۔ اس کیس میں ہندو فریق کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے بتایا کہ عدالت نے مسلم فریق کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ قابل سماعت ہے اور کیس کی اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہوگی۔
گیان واپی کیس میں سماعت کرتے ہوئے وارانسی کی ضلعی عدالت نے ہندو فریق کی عرضی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ یہ کیس قابل سماعت ہے اور اس معاملے میں اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہوگی۔ عدالت نے انجمن اسلامیہ مسجد کمیٹی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں گیان واپی مسجد کے احاطے میں پانچ ہندو خواتین کی طرف سے دائر کردہ مقدمے کی برقراری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج اے کے وشویش نے کیس کا فیصلہ سنایا اور معاملے کی مزید سماعت 22 ستمبر کو مقرر کی۔
وارانسی کی عدالت نے انجمن اسلامیہ مسجد کمیٹی کی درخواست (آرڈر 7 رول 11 سی پی سی کے تحت دائر کی گئی) کو خارج کر دیا جس میں پانچ ہندو خواتین (مدعی) کی طرف سے گیان واپی مسجد کے احاطے میں پوجا کرنے کے لیے دائر مقدمے کی برقراری کو چیلنج کیا گیا تھا۔مدعی نے کاشی وشوناتھ مندر کے ساتھ واقع مسجد کمپلیکس کی بیرونی دیوار پر شرنگار گوری کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ انجمن اسلامیہ کمیٹی (جو وارانسی میں گیان واپی مسجد کا انتظام دیکھتی ہے) نے یہ استدلال کرتے ہوئے چیلنج کیا تھا کہ ہندو عبادت گزاروں کو قانون (پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991) کے ذریعے روکا جائے ہے۔
فریقین کو تفصیل سے سننے کے بعد ڈسٹرکٹ جج اے کے وشواش نے گزشتہ ماہ سماعت مکمل کی اور اپنا حکم محفوظ کر لیا تھا۔ مدعیان نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ مسجد کمپلیکس کسی زمانے میں ہندوؤں کا مندر تھا اور اسے مغل حکمران اورنگزیب نے منہدم کرنے کے بعد وہاں موجودہ مسجد کا ڈھانچہ بنایا تھا۔دوسری جانب انجمن مسجد کمیٹی نے اپنے اعتراض اور آرڈر 7 رول 11 کی درخواست میں دلیل دی کہ یہ مقدمہ خاص طور پر عبادت گاہوں (خصوصی انتظامات) ایکٹ 1991 کے ذریعہ ناقابل سماعت ہے۔
مدعی نے عدالت کے سامنے دلیل دی تھی کہ آرڈر 7 رول 11 سی پی سی کی درخواست کو الگ سے نہیں سنا جانا چاہیے اور کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ مدعیان نے یہ بھی دلیل دی کہ انہیں گیان واپی مسجد کے سروے کی سی ڈی، رپورٹس اور تصاویر فراہم کی جائیں۔ تاہم مسجد کمیٹی نے دلیل دی کہ آرڈر 7 رول 11 سی پی سی کے تحت ان کی درخواست کو پہلے سنا جائے اور وہ بھی الگ سے۔مقامی عدالت وارنسی کے سول جج (سینئر ڈویژن) روی کمار دیواکر کی سربراہی میں قبل ازیں مسجد کا دورہ کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک سروے کمیشن مقرر کیا تھا۔ عدالت کو سروے رپورٹ 19 مئی کو موصول ہوئی تھی۔ سروے رپورٹ کو پیش کرنے سے پہلے ہی عدالت نے مقرر کردہ ایڈوکیٹ کمشنر کی طرف سے دی گئی عرضی پر اس جگہ کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا کہ سروے کے دوران گیان واپی مسجد کے احاطے میں مبینہ شیو لِنگ پایا گیا تھا۔
وارانسی کے ضلع مجسٹریٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ جس جگہ پر مبینہ شیولنگ پایا گیا ہے اسے فوری طور پر سیل کر دیا جائے اور سیل کی گئی جگہ پر کسی بھی شخص کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ دریں اثنا سُپریم کورٹ میں مسجد کمیٹی کی طرف سے ایک عرضی دائر کی گئی ہے جس میں وارانسی کورٹ کے سروے کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔سُپریم کورٹ نے 17 مئی کو عرضی پر سماعت کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وارانسی میں سول جج سینئر ڈویژن کی طرف سے اس جگہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا جہاں گیان واپی مسجد کے سروے کے دوران مبینہ شیولنگ کے پائے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن مسلمانوں کے مسجد میں نماز پڑھنے اور مذہبی رسومات ادا کرنے کے حق کو محدود نہ کریں۔
سُپریم کورٹ نے 20 مئی کو گیان واپی مسجد-کاشی وشوناتھ مندر تنازع کے سلسلے میں ہندو عقیدت مندوں کی طرف سے دائر مقدمہ کو وارانسی کی ضلعی عدالت میں منتقل کر دیا تھا۔ دریں اثنا یہ بھی حکم دیا گیا کہ اس کا 17 مئی کا عبوری حکم درخواست پر فیصلہ ہونے تک اور اس کے بعد 8 ہفتوں تک نافذ رہے گا۔اس کے ساتھ ہی جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔