بریلی: گورنمنٹ رضا پی جی کالج رامپور میں بطور ایسوسیٹ پروفیسر اور بریلی ضلع کے اعظم نگر علاقے میں رہنے والی بیبی تبسم کی حالیہ ریسرچ سے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ اُنہوں نے پایا کہ بریلی، رامپور، مراد آباد اور امروہہ میں پیدا ہونے والے گندم اور آم میں آرسینک خطرناک مقدار میں موجود ہے، جو عام زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ سائنس کی پروفیسر بیبی تبسم کا دعویٰ ہے کہ یہ آرسینک خاص طور پر 'ای ویسٹج' یعنی الیکٹرانک سامان کے کچرے کو غیر منصوبہ بند طریقے سے ٹھکانے لگانے اور فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کی وجہ سے بڑھا ہے۔ اس آرسینک سے کینسر اور چرم کی بیماریاں بڑھنے کا سب سے زیادہ خطرہ بنا رہتا ہے۔ A Dangerous Arsenic found in Mango and Potato
ایسوسیٹ پروفیسر بیبی تبسم نے اپنی ٹیم کے ساتھ بریلی، رامپور، مراد آباد، امروہہ اور بجنور میں آم، گندم اور آٹے کے سیمپل لیے تھے۔ اس سیمپل کو انڈین ویٹرینری رسرچ انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ٹیسٹ کرایا۔ ٹیسٹ رپورٹ میں آرسینک کی مقدار عام معیار سے کافی زیادہ تھی۔ ڈبلو ایچ او کے میعار کے مطابق 01۔0 ملی گرام تک پایا جانے والا آرسینک خطرناک نہیں ہوتا ہے، جب کہ اس ریسرچ رپورٹ میں گندم میں 7۔1 اور آم میں 2۔1 ملی گرام تک آرسینک پایا گیا ہے۔ بجنور میں پھر بھی غنیمت ہے کہ یہاں آرسینک کی مقدار کافی کم ملی ہے، لیکن بریلی، رامپور، مرادآباد اور امروہہ کی صورت حال تشویشناک ہے۔
روٹیاں بنانے کے لیے استعمال ہونے والے آٹے میں پایا جانے والے آرسینک بھی بہت خطرناک ہے۔ بیبی تبسم نے آٹے میں آرسینک کی مقدار کا مطالعہ کرنے کے مقصد سے کل 9 گاؤں میں 25 گھروں سے سیمپل کے طور پر آٹا جمع کیا تھا۔ اس کی رسرچ رپورٹ میں بھی 7۔1 ملی گرام آرسینک پایا گیا ہے جو کسی مہلک بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔
بیبی تبسم کی ریسرچ کے مطابق الیکٹرانک سامان کو غیرمنصوبہ بند طریقے سے ٹھکانے لگانے کی وجہ سے ماحول میں آرسینک کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ گھروں میں خراب ہونے والی دیوارگھڑی، بیٹری، ٹی وی اور ریڈیو کے پرزے، پلاسٹک، پالیتھین وغیرہ کو یا تو جلا دیا جاتا ہے یا پھر کباڑی کو فروخت کرنے سے بھی آرسینک کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ کباڑی اکثر کسی سامان سے ضرورت کا سامان نکالنے کے بعد اُسے جلا دیتا ہے اور جلا ہوا سامان بارش کی پانی کے ساتھ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر فصل اور پھلوں کی شکل میں زہر بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔
بیبی تبسم اب تک یوروپ اور عرب کے 27 ممالک میں اپنے ریسرچ کے کام کے متعلق سفر کر چکی ہیں۔ اُنہوں نے اب تک 14 کتابیں بھی لکھی ہیں اور دو کتابیں جلد ہی منظرعام پر آنے والی ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے 45 جنرل پیپر بین الاقوامی سطح پر شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی جدید ریسرچ پر کام جاری ہے اور ریاستی حکومت کی جانب سے بھی کچھ اہم پروجیکٹ تیار کرنے کی ذمہ داری ملی ہے۔