الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ جب بھی گوشت برآمد ہوتا ہے اس کی فورنسک لیب میں جانچ کرائے بغیر اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو اس الزام میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جو شاید اس نے کیا نہیں ہے۔ کورٹ نے آوارہ مویشوں کو دیکھ بھال کی حالت پر کہا کہ ریاست میں تحفظ گائے کو صحیح جذبے کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ باتیں جسٹس سدھارتھ نے تحفظ گائے ایکٹ کے تحت جیل میں قید رحیم الدین کی ضمانت عرضی پر سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا۔ عدالت نے رحیم الدین کی عرضی منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ ضمانت عرضی میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر میں عرضی گذار کے خلاف کوئی مخصوص الزام نہیں ہے اور نہ ہی وہ موقع واردات پر پکڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے برآمد گوشت کی حقیقت جاننے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی ہے کہ وہ گائے کا گوشت ہی ہے یا کسی دیگر مویشی کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنارس میں بنکرز کی ہڑتال جاری
عدالت نے کہا کہ زیادہ تر معاملوں میں جب گوشت پکڑا جاتا ہے تو اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے۔ اسے فورنسک لیب نہیں بھیجا اور ملزم کو اس جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جس میں سات برس تک کی سزا کی تجویز ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اسی طرح سے جب گائیں برآمد کی جاتی ہیں تو کئی ریکوری میمو تیاری نہیں کیا جاتا اور کسی کو نہیں پتہ ہوتا ہے کہ برآمدگی کے بعد اسے کہاں لے جایا جائے گا۔ وہ دودھ دینا بند کر دیں تو مالک بھی یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں گئوشالہ والے بھی انہیں قبول نہیں کرتے۔ وہ فصلوں کو برباد کرتی ہیں اور سڑکوں پر حادثات کی وجوہات بنتی ہیں۔ ایسے مویشیوں کو گئوشالاؤں یا ان کے مالکان کے پاس ہی رکھنے کے لیے کوئی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔