ETV Bharat / state

'تبدیلی مذہب قانون کے آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانا مقصد'

یو پی اے ٹی ایس نے دو لوگوں کو جبرا مذہب تبدیل کرانے کے جرم میں گرفتار کیا ہے۔ رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ یہ سب 2022 کے اسمبلی انتخابات کے مدنظر کیا جارہا تاکہ ہندو ووٹ بھاجپا کو مل سکے۔

تبدیلی مذہب قانون کے آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانا مقصد
تبدیلی مذہب قانون کے آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانا مقصد
author img

By

Published : Jun 22, 2021, 9:48 PM IST

اترپردیش اے ٹی ایس نے دہلی کے مفتی جہانگیر قاسمی اور ڈاکٹر عمر گوتم کو جبرا تبدیل مذہب کے نام پر گرفتار کیا ہے۔ ان پر ہزار سے زائد لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ 2022 کا اسمبلی انتخابات بھاجپا کے سامنے ہے۔ وہ اکثریت طبقے کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے.جس میں اے ٹی ایس کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تبدیلی مذہب قانون کے آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانا مقصد


ایڈوکیٹ شعیب نے بتایا کہ جبرا مذہب تبدیلی آرڈنینس 27 نومبر 2020 غیر قانونی ہے۔

اے ٹی ایس نے جن دو شخص پر جبرا تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا ہے ان پر 420، 120 بی، 153 اے، 153 بی، 295 اور 511 کے دفعات لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ 420 کے تحت کس کے ساتھ دھوکہ دہی ہوئی؟

120 بی کے تحت کس کے ساتھ سازش کی گئی؟

153 اے، 153 بی کے تحت بھڑکاؤ تقریر ہوئی اور کہاں پر ہوئی؟

295 کے تحت دوسرے مذہب کے خلاف کیا غلط بولا گیا ہے؟

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اے ٹی ایس نے دفعہ 511 لگا کر ثابت کر دیا کہ یہ لوگ ابھی ان کاموں کی کوشش کر رہے تھے، تبھی انہیں گرفتار کر لیا گیا لہذا گرفتاری قانون کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف اور صرف ہندو ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ بھاجپا اور مودی بھکت ہیں، ان کو خوش کرنے اور بے وقوف بنانے کے لئے سرکار اے ٹی ایس کا غلط استعمال کر رہی ہے لہذا اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، سبھی کو اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

رہائی مانج کے صدر نے کہا کہ بھارتی آئین نے سبھی کو اپنے کے اعتبار سے عبادت کرنے اور تبلیغ کی آزادی دی ہے۔ اگر کوئی لالچ دے کر ایسا کرتا ہے تو غلط ہے کیونکہ اسلام اس کے خلاف ہے۔ اسلام زبردستی کا نام نہیں بلکہ ایمان کا نام ہی اسلام ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آئین ہند نے یہاں بسنے والے شہریوں کو بنیادی حقوق دیے ہیں اور ان حقوق میں مذہبی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔ جس کا آئین کے آرٹیکل 25 سے 28 میں ذکر ہے۔ بھارت میں یہ حق ہر فردیا شہریوں کو برابر ہے۔

*مذہبی آزادی کا حق*

آرٹیکل 25:

(ضمیر کی آزادی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے، عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی آزادی) اس کے تحت بھارت میں ہر فرد کو کسی بھی مذہب کو ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی آزادی ہے۔

آرٹیکل 26:

مذہبی امور کے نظم و نسق کی آزادی) ہر فرد کو اپنے مذہب کے لیے ادارے قائم کرنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے اس کے مذہبی امور کا نظم و نسق جائیداد کے حصول اور اس کی ملکیت منقولہ اور غیر منقولہ، قانون کے مطابق اس طرح کے جائیداد کے انتظام کا حق ہوگا۔

آرٹیکل 27:

کسی خاص مذہب کے فروغ کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی سے آزادی کسی بھی فرد کو کسی بھی قسم کا ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، جس میں سے خاص طور پر کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقے کے فروغ یا دیکھ بھال کے لئے اخراجات کی ادائیگی میں خصوصی طور پر مختص کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: مذہب تبدیل کرانے والوں پر سخت کارروائی ہو: یوگی آدتیہ ناتھ


آرٹیکل 28:

(کچھ تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم یا مذہبی عبادت میں شرکت کی آزادی) اس کے مطابق سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں کو مذہبی ہدایات فراہم کرنے سے منع کرتا ہے۔ جب تک کہ اس طرح کی مذہبی تعلیم دینے کے بارے میں، جب تک یہ ادارہ قائم کیا گیا ہو۔ اوقاف یا ٹرسٹ کی شرائط میں کوئی شرط نہ ہو۔ اس سے کسی بھی تعلیمی ادارے میں آنے والے فرد کو یہ حق بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کسی بھی مذہبی تعلیم میں حصہ نہ لیں۔

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اے ٹی ایس نے غلط طریقے سے گرفتاری کی ہے، جو ملک کے آئین و قانون کے خلاف ہے۔ اگر جج ایماندار ہوا تو فورا ہی یہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔

اترپردیش اے ٹی ایس نے دہلی کے مفتی جہانگیر قاسمی اور ڈاکٹر عمر گوتم کو جبرا تبدیل مذہب کے نام پر گرفتار کیا ہے۔ ان پر ہزار سے زائد لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ 2022 کا اسمبلی انتخابات بھاجپا کے سامنے ہے۔ وہ اکثریت طبقے کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے.جس میں اے ٹی ایس کو غلط طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تبدیلی مذہب قانون کے آڑ میں سیاسی فائدہ اٹھانا مقصد


ایڈوکیٹ شعیب نے بتایا کہ جبرا مذہب تبدیلی آرڈنینس 27 نومبر 2020 غیر قانونی ہے۔

اے ٹی ایس نے جن دو شخص پر جبرا تبدیلی مذہب کا الزام عائد کیا ہے ان پر 420، 120 بی، 153 اے، 153 بی، 295 اور 511 کے دفعات لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ 420 کے تحت کس کے ساتھ دھوکہ دہی ہوئی؟

120 بی کے تحت کس کے ساتھ سازش کی گئی؟

153 اے، 153 بی کے تحت بھڑکاؤ تقریر ہوئی اور کہاں پر ہوئی؟

295 کے تحت دوسرے مذہب کے خلاف کیا غلط بولا گیا ہے؟

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اے ٹی ایس نے دفعہ 511 لگا کر ثابت کر دیا کہ یہ لوگ ابھی ان کاموں کی کوشش کر رہے تھے، تبھی انہیں گرفتار کر لیا گیا لہذا گرفتاری قانون کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف اور صرف ہندو ووٹرز کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کیلئے یہ سب کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ بھاجپا اور مودی بھکت ہیں، ان کو خوش کرنے اور بے وقوف بنانے کے لئے سرکار اے ٹی ایس کا غلط استعمال کر رہی ہے لہذا اسے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، سبھی کو اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔

رہائی مانج کے صدر نے کہا کہ بھارتی آئین نے سبھی کو اپنے کے اعتبار سے عبادت کرنے اور تبلیغ کی آزادی دی ہے۔ اگر کوئی لالچ دے کر ایسا کرتا ہے تو غلط ہے کیونکہ اسلام اس کے خلاف ہے۔ اسلام زبردستی کا نام نہیں بلکہ ایمان کا نام ہی اسلام ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آئین ہند نے یہاں بسنے والے شہریوں کو بنیادی حقوق دیے ہیں اور ان حقوق میں مذہبی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔ جس کا آئین کے آرٹیکل 25 سے 28 میں ذکر ہے۔ بھارت میں یہ حق ہر فردیا شہریوں کو برابر ہے۔

*مذہبی آزادی کا حق*

آرٹیکل 25:

(ضمیر کی آزادی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے، عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی آزادی) اس کے تحت بھارت میں ہر فرد کو کسی بھی مذہب کو ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی آزادی ہے۔

آرٹیکل 26:

مذہبی امور کے نظم و نسق کی آزادی) ہر فرد کو اپنے مذہب کے لیے ادارے قائم کرنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے اس کے مذہبی امور کا نظم و نسق جائیداد کے حصول اور اس کی ملکیت منقولہ اور غیر منقولہ، قانون کے مطابق اس طرح کے جائیداد کے انتظام کا حق ہوگا۔

آرٹیکل 27:

کسی خاص مذہب کے فروغ کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی سے آزادی کسی بھی فرد کو کسی بھی قسم کا ٹیکس ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، جس میں سے خاص طور پر کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقے کے فروغ یا دیکھ بھال کے لئے اخراجات کی ادائیگی میں خصوصی طور پر مختص کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: مذہب تبدیل کرانے والوں پر سخت کارروائی ہو: یوگی آدتیہ ناتھ


آرٹیکل 28:

(کچھ تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم یا مذہبی عبادت میں شرکت کی آزادی) اس کے مطابق سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں کو مذہبی ہدایات فراہم کرنے سے منع کرتا ہے۔ جب تک کہ اس طرح کی مذہبی تعلیم دینے کے بارے میں، جب تک یہ ادارہ قائم کیا گیا ہو۔ اوقاف یا ٹرسٹ کی شرائط میں کوئی شرط نہ ہو۔ اس سے کسی بھی تعلیمی ادارے میں آنے والے فرد کو یہ حق بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کسی بھی مذہبی تعلیم میں حصہ نہ لیں۔

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اے ٹی ایس نے غلط طریقے سے گرفتاری کی ہے، جو ملک کے آئین و قانون کے خلاف ہے۔ اگر جج ایماندار ہوا تو فورا ہی یہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.