جگر مراد آبادی نے اردو شاعری کے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن غزلیہ میدان میں انہیں جو شہرت ملی وہ انہیں کسی دوسری صنف میں حاصل نہیں ہوئی گو کہ جگر مراد آبادی کی شاعری میں تغزل کی وہ رنگ و آہنگ ہے جو دیگر شعرا می شاعری میں نہیں پائی جاتی۔
جگر مراد آبادی کو مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی غزلیہ شاعری کو کافی شہرت حاصل ہوئی حتیٰ کہ ان کی شاعری کو ضرب المثل کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔
وہ ایسے شاعر تھے جنہوں نے اردو غزلیہ شاعری کو نئی زندگی عطا کی تھی۔ ان کی زندگی جام نوشی اور عشق بازی سے پر محیط رہی لیکن شاعری کے میدان میں انہوں نے جو جو شہرت حاصل کی وہ آج بھی ان کے قد کو بلند کرتی ہے۔
مشاعرے کے علاوہ جگر مراد آبادی معیاری اشعار کہتے تھے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اردو شاعری ابتدائی دور میں رومانوی، ادبی اور کلاسیکی ثقافتی اور گرد و نواح کے ابھرتے مسائل پر مرکوز ہوا کرتی تھی لیکن جگر مراد آبادی نے ان تمام موضوعات کو نئی جہت عطا کی۔
آفتاب احمد نے آل احمد سرور کا حوالہ دیتے ہوئے جگر مراد آبادی کے تعلق سے کہا کہ ان کی شاعری میں حقیقت اور خواب کا امتزاج ہوتا ہے۔ رومانوی کیفیت کو جس طرح جگر مرادابادی نے بیان کیا وہ بہت ہی اعلی معیار کا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بہت سے اشعار مشہور زمانہ ہوئے۔ ایک شعر جس کے ذریعے انہوں نے سیاسی لوگوں پر طنز کیا کہ بہت مشہور ہوا۔
- جگر مراد آبادی کے اشعار
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
۔۔۔۔۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لجیئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے