انہوں نے بلند شہر کے اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اترپردیش میں لاءاینڈ آرڈر پوری طرح ختم ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر کے پالگھر میں دو سادھوؤں سمیت تین لوگوں کا قتل ہوا تھا، پولیس نے اسی رات کو 110 لوگوں کو گرفتار کر لیا تھا اور حکومت نے اس کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا فیصلہ کر دیا تھا۔
پالگھر کے حادثے کو بی جے پی نے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے ریاست کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔
وہیں بی جے پی اب بلندشہر میں ہوئے سادھوؤں کے قتل پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس سے بی جے پی کا دوہرا معیار اور کورونا جیسی آفت کے درمیان گھٹیا سیاست کرنے کی عادت ظاہر ہو جاتی ہے۔
بلند شہر کے واقعے کے پسِ منظر میں سچن ساونت نے بی جے پی سے کچھ سوالات کیے ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ پالگھر میں ہوئے موب لنچنگ کے واقعے کے بعد امیت شاہ نے ریاست کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو فوری طور پر فون کرنے میں نہایت عجلت دکھائی تھی، کیا یہی عجلت انہوں نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کو فون کرنے میں دکھائی؟ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا سمیت بی جے پی کے ایک بھی لیڈر نے اس معاملے میں کوئی ٹوئیٹ نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا پالگھر کے سادھوؤں اور بلند شہر کے سادھوؤں میں کوئی فرق ہے؟ بلند شہر کے سادھوؤں کے قتل سے قبل ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی تھی، اس کے باوجود ان سادھوؤں کو تحفظ کیوں نہیں فراہم کیا گیا؟ کیا یہ یوپی حکومت کی انٹلی جینس کی ناکامی نہیں ہے؟ ان جیسے مزید کئی سوالات کرتے ہوئے سچن ساونت نے بی جے پی سے سوال کیا ہے کہ اتنا بڑا حادثہ ہونے پر بی جے پی کیوں خاموش ہے اور کیوں اس معاملے میں اسی طرح کا کردار نہیں ادا کررہی ہے جس طرح اس نے پالگھر معاملے میں نبھایا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ بی جے پی صرف اور صرف سیاست کر کے مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی کو حکومت کو بدنام کرنا چاہتی تھی۔