علیگڑھـ: قرون وسطیٰ سے عہد جدید تک افغانستان کا تاریخی ارتقاء - تاریخ، سیاست، معاشرت اور ثقافت موضوع پر یک روزہ قومی سمپوزیم میں مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر گلفشاں خان نے کابل کی تاریخی اہمیت، خطے کی ثقافت کی تشکیل میں بابر کے کردار اور باغ وفا، باغ صفا، اور صائب نامی شاعر کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ممتاز مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب، پروفیسر ایمریٹس نے افغانستان کی تاریخ، قبائلی حرکیات، زبانوں، گندھارا آرٹ اور اس کے تاریخی تناظر میں قیمتی گفتگو کی۔ انہوں نے آوستا کی تالیف میں افغانستان کے کردار پر زور دیا جو کہ دنیا کی قدیم ترین متون میں سے ایک ہے اور مذہبی اور فلسفیانہ افکار کے گہوارہ کے طور پر اس کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اپنے صدارتی کلمات میں پروفیسر مرزا اسمر بیگ، ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے افغانستان کی تاریخی اہمیت اور خواتین اور بچوں سے متعلق انسانی حقوق کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے پیچیدہ سیاسی منظر نامے پر بھی گفتگو کی۔ سیمینار کے اکیڈمک سیشن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم ایم اے جے اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر محمد سہراب نے ’افغانستان: قدیم اور عصری سامراجی فکر میں ایک لازوال پیادہ‘ کے عنوان سے ایک پریزنٹیشن دیا۔
آئی سی ڈبلیو اے، نئی دہلی سے ڈاکٹر فضل الرحمٰن صدیقی نے ’طالبان 2.0 کے دو سال: ماضی اور حال‘ موضوع پر گفتگو کی، جب کہ پروفیسر ایم وسیم راجہ نے ’افغانستان کا سفر قرون وسطیٰ سے جدیدیت تک: قبائلیت، اصلاحات، اور مزاحمت کا ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے اپنے علمی خیالات پیش کیے۔ ڈاکٹر فرح سیف عابدین نے ’قبائلی برادریاں اور مغل ریاست: کابل میں مقابلہ، اتحاد، اور شاہی خودمختاری‘ کے موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا، جبکہ ڈاکٹر سیف اللہ سیفی نے ’بخارا میں بالشویک انقلاب، امیر علیم خان، اور افغانستان کے امیر کا کردار‘ کے عنوان سے ایک پریزنٹیشن دیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انڈیا عرب کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ناصر رضا خان نے ’ایران اور افغانستان کے تیموری فن تعمیر کی تاریخ‘ کے عنوان سے اپنی پیشکش میں قیمتی معلومات فراہم کیں۔